Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 4

 ناول پہلی محبت 

قسط 4 

 

کلاس لینے کے بعد زویا ارم کے ساتھ کینٹین گی 

زویا اور ارم دونوں بیٹھی ہوئی تھی 

ارم نے زویا کو مخاطب کر کے کہا : زویا تجھے پتا ہے الیکشن ہونے والے ہیں تو کس کو ووٹ دے گی 

زویا نے منہ بنا کر کہا : تجھے آج کیا ہوگیا ہے کیوں اتنی بکواس باتیں کر رہی ہے 

مجھے لگتا ہے آج کا دن ہی میرا خراب ہے 

پہلے ماما ، پھر سر ، اور پھر اب تو 

ارم نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا: میں نے کیا کیا ، میں نے تو بس پوچھا ہے 

زویا نے غصہ سے کہا : مجھے جتنی نفرت میٹ سے ہے نہ اس سے زیادہ نفرت سیاست اور سیاستدانوں سے ہے 

سیاستدان صرف خود غرض ہوتے ہیں اپنی غرض کیلئے وہ عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑتے 

سیاستدان سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں ہوتا 

ان کو تو شاید رشتہ نبھانے بھی نہ آتے ہو یا پھر اس میں بھی کوئی سیاست ہی کرتے ہو 

ارم نے ہنس کر کہا : اچھا ٹھیک ہے 

چل اب کچھ کھانے کیلئے آرڈر کرتے ہیں 

زویا نے مسکرا کر کہا : ابھی کی نہ تو نے میرے کام کی بات 


رعیان کنول کے گھر سے باہر آیا 

باہر علی گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا 

رعیان خاموشی سے بیٹھا تھا 

علی گاڑی چلا رہا تھا 

علی کو پتا تھا کہ کنول نہیں مانیں گی 

علی نے رعیان کو دیکھ کر کہا : رعیان کیا ہوا 

رعیان بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا 

ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی ساری دنیا ہی ختم ہوگئی ہو 

وہ بہت گہرے صدمہ میں تھا 

اس کو ہر جگہ اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا 

وہ کنول سے بے حد محبت کرتا تھا لیکن اب جب کنول نے اس کی محبت کو ٹھکرا دیا تو رعیان کو اپنی زندگی ختم ہوتے ہوئے دیکھائی دے رہی تھی 

آخر ٹھکرا دینے والی اذیت کم تھوڑی ہوتی ہے اور رعیان کے جزباتوں کی جو توہین ہوئی ہے وہ بھول جانا آسان نہیں تھا 

رعیان ایک دم رونے لگ گیا 

رعیان بہت مضبوط لڑکا تھا لیکن کنول نے رعیان کو کچھ اس طرح توڑا ہے کہ شاید ہی اب وہ کبھی پھر جڑ سکے 

رعیان کے دل خون کے آنسو رو رہا تھا 

علی نے رعیان کو سنبھالتے ہوئے کہا : میں نے تجھے منع بھی کیا تھا 

لیکن تو میری بات سنتا کہاں ہے 

میں نے کہا تھا وہ لڑکی تیرے قابل نہیں ہے تو کیوں اُس لڑکی کے لئے اپنے آنسو ضائع کر رہا ہے 

وہ تیرے آنسوؤں کے قابل نہیں ہے 



رعیان نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا : گاڑی گھر لے کر چلو 

رعیان اپنے گھر آیا 




اس بات کو ہفتے گزر گئے لیکن رعیان اس بات کو نہیں بھولا تھا 

وہ اب چپ چپ رہنے لگتا 

باہر بھی کم ہی جاتا تھا 

کسی سے بھی صحیح بات نہیں کرتا تھا اور تھوڑی تھوڑی بات پر غصہ کرتا تھا 

اب وہ پہلے والا رعیان نہیں رہا جو مسکرا کر اپنی زندگی جیتا تھا 

کنول کے باتوں کے بعد اب اس کا دل پتھر ہوگیا تھا 

اس کو کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا نہ خوشی نہ غم 

کنول کے جانے کے بعد بھی وہ ابھی تک اُس کو نہیں بھولا تھا یا شاید وہ کبھی اس کو بھولنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ کنول اُس کی پہلی محبت تھی 

آج بھی اُس کا دل کنول کے نام سے دھڑکتا تھا 

آج بھی وہ راتوں کو کنول کی یاد میں روتا تھا 

محبت بھی انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے 

ٹھکرا دینے کے باوجود بھی محبت کم نہیں ہوتی 



رعیان اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا 

کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی


عمر نے رعیان نے پوچھا : رعیان میں اندر آ جاؤ 

رعیان نے کہا : آ جائیں 

عمر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا 

اُس کے کمرے میں ہر جگہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا

عمر نے لائٹ اون کی 

عمر نے دیکھا تو رعیان کے کمرے میں کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں پڑی تھی 

پہلے رعیان کو اپنے کمرے کی ہر چیز جگہ پر چاہیے ہوتی تھی 

ہر چیز کو ترتیب سے رکھتا تھا 

لیکن آج اس کے کمرے میں کوئی بھی چیز ترتیب سے نہیں پڑی ہوئی تھی 

عمر رعیان کے پاس آیا اور کہا : یہ کیا حالت بنا لی ہے تم نے اپنی اور اپنے کمرے کی ؟؟؟

رعیان خاموش تھا 

عمر نے کہا : رعیان تمہیں تو تمہاری چیزیں ترتیب سے پسند ہیں 

آج تمہارے کمرے میں ساری چیزیں کیوں ایسے پڑی ہیں ؟؟؟

رعیان نے غصہ سے کہا : جب دل اور زندگی ہی بے ترتیب ہو جائے تو کیا 

کیا جائے ؟؟؟

عمر نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : میں ایک ہفتے سے دیکھ رہا ہوں تم کچھ پریشان سے رہتے ہو نہ کسی سے بات کرتے ہو 

اور اگر کوئی تم سے بات کرے تو تم غصہ ہو جاتے ہو 

کیا بات ہے ؟؟؟

رعیان نے عمر کو دیکھتے ہوئے کہا : عمر بھائی آپ کیا بات کرنے آئے تھا وہ بات کریں 

عمر نے رعیان کو سمجھاتے ہوئے کہا : دیکھو یار پاپا بہت چاہتے ہیں کہ تم اس بار کے الیکشن میں کھڑے ہو جاؤ اور میں بھی یہ ہی چاہتا ہوں 

اور ہم سب کو یقین ہے کہ اگر تم الیکشن میں کھڑے ہو جاؤ گے تو تم ہی جیتو گے 

تم پاپا کی ذمہ داریاں سنبھال لو گے تو مجھے بھی مدد مل جائے گی 

میری ذمہ داریاں بھی کم ہو جائے گی میں پھر اپنا پورا فوکس اپنے بزنس پر کر سکتا ہوں 

رعیان خاموش تھا 

عمر نے کہا : تم نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے نہ زندگی میں تو پھر سیاست ہی کر لو 

مان جاؤ 

رعیان نے عمر کو دیکھتے ہوئے کہا : عمر بھائی آپ جائیں پاپا آپ کے پاس اور ان کو کہہ دے میں تیار ہوں 

میں اس بار الیکشن میں کھڑا ہونگا 

عمر رعیان کی بات سن کر چونک گیا اور کہنے لگا : تم سچ بول رہے ہو ؟؟؟

رعیان نے غصہ سے کہا : ہاں سچ بول رہا ہوں 

اب آپ جائیں 

عمر نے مسکرا کر کہا : بڑی عجیب بات ہے جو کل تک سیاست سے دور بھاگتا تھا وہ آج اتنی آسانی کے ساتھ کیسے مان گیا 

رعیان نے تلخ انداز میں کہا : زندگی ہمیشہ ہم سے وہی چاہتی ہے جو ہم نہیں چاہتے 

تو ہم اس قدر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں بھی زندگی میں وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو ہم کرنا نہیں چاہتے 

عمر نے ہنس کر کہا : مجھے یقین ہے تمہیں بہت مزہ آئے گا 

اب میں چلتا ہوں تم اپنا خیال رکھنا 

میں یہ خوشخبری پاپا کو دیتا ہوں 

عمر خوشی خوشی رعیان کے کمرے سے باہر گیا 



سکندر صاحب جو کہ ہال میں بیٹھے ہوئے عمر کا انتظار کر رہے تھے 

عمر کو دیکھتے ہی انہوں نے سوال کیا : کیا بولا رعیان نے ؟؟؟

عمر نے خوشی سے کہا : وہ مان گیا 

سکندر صاحب کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا 

انہوں نے عمر سے ایک دفعہ پھر پوچھا : رعیان سچ میں مان گیا 

عمر نے خوشی بھرے لہجے میں کہا : جی ہاں پاپا اس نے خود کہا ہے وہ الیکشن میں کھڑا ہوگا 


سکندر صاحب نے خوشی سے کہا : تو بس نیک کام میں دیر کیسی 

میں آج ہی میڈیا کانفرنس بلاتا ہوں 

اور یہ اناؤنسمینٹ کر دیتا ہوں کہ اس بار کے ایم این اے کے الیکشن میں میرا بیٹا رعیان سکندر کھڑا  ہو گا 

یہ کہہ کر سکندر صاحب نے آفتاب کو آواز دی 

آفتاب جو کہ ان کے گھر کا پرانا ملازم ہے 

آفتاب سکندر صاحب کی ایک آواز سن کر دوڑ کر ان کے پاس آیا 

سکندر صاحب نے اتر کر کہا : آفتاب جلدی سے سب نیوز چینل والوں کو خبر کر دو 

آج شام چار بجے سکندر صاحب کی حویلی میں میڈیا کانفرنس ہے 

اور پورے شہر میں رعیان سکندر کے پوسٹر لگا دو تا کہ پورے شہر کو ان کے نئے ایم این اے کا پتہ چل جائے 

باقی جو اناؤنسمینٹ ہو گی

 وہ میں میڈیا کے سامنے کر دوں گا 


جاری ہے ....

Post a Comment

Previous Post Next Post