Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 10

 ناول پہلی محبت 

قسط 10 


زویا نے سوچتے ہوئے کہا : وہ ایسا کیوں ہے 

آخر اُس کی زندگی میں ایسا کیا ہوا ہے جس نے اُس کو اتنا تلخ بنا دیا ہے 

ارم نے پوچھا : کون 

زویا نے کہا : رعیان اور کون

دیکھ کل اُس نے میرے ساتھ کتنی بدتمیزی کی اور آج یونیورسٹی آ کر معافی بھی مانگ لی 

میں اُس کو سمجھ نہیں پا رہی ہوں 

بہت کھڑوس ہے 


ارم نے کہا : تجھے کیا چھوڑ اُس کو 

زویا نے مسکرا کر کہا : چھوڑ ہی تو نہیں سکتی ہوں 

مجھے اُس کے بارے میں جاننے ہے 

رعیان سکندر بہت بڑی پہیلی ہے جس کو میں سلجھا کر ہی رہوں گی 

ارم نے زویا کو سمجھاتے ہوئے کہا : فالتو کے چکروں میں مت پڑ 

زویا نے کہا : میں کیا کروں میرے دل پر میرے کنڑول نہیں ہو رہا ہے 

میں چاہ کر بھی اُس کو نہیں بھول پا رہی ہوں 

آج تک میرے ساتھ کسی لڑکے نہ کیا کسی بھی انسان نے اس قدر بدتمیزی نہیں کی ہے لیکن پھر بھی مجھے اُس پر غصہ نہیں آرہا ہے 

مجھے اُس کی کوئی بات بُری ہی نہیں لگتی 

تھوڑا سا موڈ آف تھا لیکن جب اُس نے معافی مانگی میں سب بھول گیا 

مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے 

ارم نے کہا : مجھے تو لگتا ہے تجھے اُس سے محبت ہوگئی ہے 

زویا نے مسکرا کر کہا : مجھے نہیں پتہ لیکن یہ بات تو کنفرم ہے کہ جو فیلنگز رعیان کو دیکھ کر آتی ہیں وہ کسی اور کو دیکھ کر نہیں آتی 

میں بس چاہتی ہوں وہ میرے آس پاس ہی رہے 

ارم نے ہنس کر کہا : محبت کا روگ ہے اور پہلی محبت کا روگ تو بہت گہرا ہوتا ہے 

زویا نے کہا : وہ مجھ سے محبت کرے گا نہ ؟؟؟

جس طرح میں رعیان کے بارے میں دن رات سوچتی ہوں وہ بھی سوچتا ہوگا ؟؟؟

ارم نے ہنس کر کہا : کیوں ایسا سوچ رہی ہے 

کوئی پاگل ہی ہوگا جو تجھے سے محبت نہیں کرے گا 

لاکھوں میں ایک ہو تم اور اتنی خوبصورت وہ پکا تجھ سے محبت کریں گا 

زویا نے مسکرا کر کہا : بس اب کی بار وہ سامنے آیا تو اپنے دل کی بات بول دوں گی 


آج الیکشن تھے سب الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے 

سب رعیان کے ایم این اے کی خبر سننا چاہتے تھے 

سب نے ووٹ کاسٹ کیا 

بس اب نتیجہ کا انتظار تھا 

زویا نے ارم کو فون کرتے ہوئے کہا : تیار ہو جاؤ میں آرہی ہوں تجھے لینے 

ارم نے پوچھا : کہاں جانا ہے 

زویا نے کہا : تو بھول گئی کیا آج الیکشن ہیں تو ووٹ دینے جانا ہے 

ارم نے حیران ہو کر کہا : آج سورج کہاں سے نکلا ہے 

کل تک الیکشن سے دور بھاگنے والی آج ووٹ دینے جائے گی 

زویا نے ہنس کر کہا : ہاں تو آج سے پہلے رعیان کبھی الیکشن میں کھڑا بھی تو نہیں ہوا نہ وہ کھڑا ہوتا تو اس کو ہی دیتی 

اب باقی باتیں بعد میں میں آرہی ہوں تو تیار رہنا 

یہ کہہ کر زویا نے فون رکھا 

زویا ارم کو لے کر ووٹ دینے گئی 

ان دونوں نے ووٹ دیا 

زویا نے کہا : چل اب کچھ کھاتے ہیں 

سامنے ایک ہوٹل پر وہ دونوں بیٹھ گئی 

ارم نے زویا کو کہا : تجھے کیا لگتا ہے رعیان جیتے گا ؟؟؟

زویا نے مسکرا کر کہا : مجھے لگتا نہیں مجھے یقین ہے وہ ہی جیتے گا 

ارم نے کہا : اتنا یقین ویسے 

تجھے تو سیاستدان میٹ سے بھی زیادہ بُرے لگتے تھے 

تجھے لگتا تھا کہ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں 

زویا نے ہنس کر کہا : اب محبت سیاستدان وغیرہ کو تھوڑی دیکھتی ہے 

میری قسمت میں لکھا تھا ایک سیاستدان کی محبت میں گرفتار ہونا میں ہوگئی

اور اب مجھے سیاستدان بہت پسند ہیں 

ارم نے ہنس کر کہا : صحیح ہے جو محبوب کی پسند وہی محبوبہ کی پسند 

زویا نے ہنستے ہوئے کہا : پسند تو بدلنی ہی ہے آخر 

میں ایم این اے کی بیوی بن سکتی ہوں 

ارم نے کہا : تو نے اپنے مستقبل کا بھی سوچ لیا 

زویا نے بے صبری سے کہا : یار بس اب ایک بار وہ مل جائے تو پھر اس سے بات کروں گی 

پھر پاپا کو رعیان کے بارے میں بتاؤں گی اور مجھے پتہ ہے پاپا کبھی منع نہیں کریں گے 

ارم نے ہنس کر کہا : صحیح ہے

 اب کافی پی 



رات ہوگئی نو بجنے والے تھے 

سب ٹی وی چلا کر بیٹھے ہوتے تھے 

سب کو انتظار تھا کہ اس بار ایم این اے کیوں بنیں گا ؟؟؟

زویا جو کہ نیوز دیکھتی تک نہیں تھی 

آج وہ بھی نیوز چلا کر بیٹھی انتظار کر رہی تھی 

ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی مانگ رہی تھی اللہ تعالیٰ پیلز رعیان کو جیتا دینا 


محبت بھی کیا چیز ہے نہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بدل جاتا ہے 

خود کی پسند کو پیچھے چھوڑ جو اس کی پسند ہو اس کا خیال رکھتا ہے 

اس کی پسند کو اپنی پسند بنا لیتا ہے 

محبت انسان کو بدل کے رکھ دیتی ہے 


سب جس گھڑی کا انتظار کر رہے تھے 

وہ گھڑی آگئی 

رزلٹ آگیا 

شہر کا نیا ایم این اے رعیان سکندر منتخب ہوا 

زویا یہ خبر سن کر خوشی سے جھوم اٹھی 

سب نے رعیان کو مبارکباد دی 

زویا نے اپنی فیس بک آئی ڈی 

کھولی اور رعیان کو ٹیگ 

کر کہ اُس کو مبارک باد دی اور ساتھ ہی بہت ساری 

Best Wishes 

بھی دی 


دیکھا رعیان سکندر زویا چوھدری  نے کہا تھا نہ کہ تم ہی جیتو گے اور دیکھو تم جیت بھی گئے 

بہت بہت مبارک ہو 

اور پارٹی دینا مت بھولنا کیونکہ 

I Love parties 


یہ لکھ کر اُس نے پوسٹ کر دیا 


رعیان کے گھر والے بھی بہت خوش تھے سب مٹھائیاں بانٹ رہے تھے 

سب نے رعیان کو مبارکباد دی 

سکندر صاحب نے رعیان کو گلے لگا کر کہا مجھے یقین تھا بیٹا تم ہی جیتو گے 

اب جشن تو بنتا ہے 



سکندر صاحب نے آفتاب کو بلایا 

آفتاب آیا 

سکندر صاحب نے کہا : کل کی پارٹی کیلئے تیاریاں کرو 

اور سب کو انویٹیشن بھیج دینا 


ان سب سے فارغ ہو کر رعیان اپنے کمرے میں گیا 

موبائل دیکھا تو اُس میں اس کے سارے دوستوں کے میسجز تھے 

اچانک اس کی نظر زویا کے نوٹیفیکیشن پر پڑی 

اُس نے فیس بک کی آئی ڈی کھولی 

زویا کی پوسٹ پڑھی اور ہنس پڑا 

آج اتنے دنوں بعد اس کے چہرے پر یہ ہنسی آئی تھی 

کنول کے بعد تو وہ مسکرانا تک بھول گیا تھا 

رعیان نے کہا : پاگل لڑکی 



زویا نے ارم کو کال کی اور خوشی سے کہا : ارم رعیان جیت گیا 

میں بہت زیادہ خوش ہوں

ارم نے ہنس کر کہا : وہ تیری آواز سے ہی پتا چل رہا ہے تو کتنی خوش ہے 

زویا نے منہ بنا کر کہا : کاش رعیان میرے ساتھ ہوتا تو اُس کو سامنے سے مبارکباد دیتی 

ارم نے مسکرا کر کہا : جیسے اب وہ فارغ تجھ سے ملنے کیلئے بیٹھا ہے 

اب تو وہ ایم این اے بن گیا ہے اب اُس کے پاس کہاں وقت ہوگا 

زویا نے کہا : اچھا چھوڑ چل پارٹی کرتے ہیں 

رعیان سے تو میں پارٹی لے کر رہوں گی 

لیکن اب میرا دل کر رہا میں ہواؤں میں اڑ جاؤں 

ارم نے کہا : تو خوش تو ایسے ہو رہی ہے جیسے وہ نہیں تو ایم این اے بنی ہو 

زویا نے ہنستے ہوئے کہا : میں چاہتی ہوں وہ خوش رہے ہمیشہ مسکراتا رہے 

لیکن بہر بہت کھڑوس ہے مسکراتا ہی نہیں ہے 

میری طرف سے تم سب کو  پارٹی 



جاوید صاحب نے سکندر صاحب کو فون کیا اور کہا : سکندر صاحب مبارک ہو 

تمہارا بیٹا رعیان سکندر ایم این اے بن گیا 

سکندر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا : یار اب تو ایسے مبارکباد دے گا میرے بیٹا کو مٹھائی لے کر آ 

آخر وہ تیرا بھی کچھ لگتا ہے 

جاوید صاحب نے کہا : ہاں ہاں پارٹی دوں گا میں تو 

سکندر صاحب نے کہا : کل ہمارے گھر میں پارٹی ہے تو پوری فیملی کے ساتھ آنا ہے 

جاوید صاحب نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں آؤں گا آخر میرے بچپن کے دوست کا بیٹا ایم این اے بن گیا ہے مجھے تو آنا ہے 

سکندر صاحب نے کہا : میں انتظار کروں گا 



سکندر صاحب اور جاوید صاحب دونوں بچپن کے دوست تھے 

دونوں کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی 

وہ کالج تک ایک ساتھ پڑھے تھے 

دونوں کے راستے الگ الگ تھے لیکن پھر بھی ان کے دل جڑے ہوئے تھے 

وہ ہمیشہ رابطہ میں رہتے تھے 

اور اب تک ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں 




جاری ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post