Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 9

 ناول پہلی محبت 

قسط 9 



زویا غصہ میں ارم کے پاس آئی اور کہا چلو ارم

ارم نے حیران ہو کر کہا : کیا ہوا زویا تم اتنے غصہ میں کیوں ہو 


زویا جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی 

اُس کو بہت غصہ آرہا تھا 

وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے 

 ارم نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا : زویا بتاؤ کیا ہوا ہے

زویا نے غصہ سے کہا : چپ کر جاؤ مجھے بہت زیادہ غصہ آرہا ہے 

میرا دل کر رہا ہے میں منہ توڑ دوں اُس انسان کا 

لیکن جب وہ میرے سامنے ہوتا ہے تب مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا 

ارم نے کہا : کس کی بات کر رہی ہو 

زویا نے ارم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : بس خاموش ہو جاؤ 

یہ کہہ کر اُس نے گاڑی چلائی 

گاڑی کی اسپیڈ اُسکے غصے کی طرح تیز ہو رہی تھی 

ارم نے گاڑی کی اسپیڈ کو دیکھتے ہوئے کہا : اچھا نہ بتاؤ لیکن پیلز گاڑی کی اسپیڈ تو کم کرو ورنہ گھر جانے کے بجائے ہم لوگ ہاسپیٹل جائیں گے 


30 منٹ گھر کا راستہ تھا 

زویا 15 منٹ میں گھر آگئی 

اتنی اسپیڈ میں زویا نے گاڑی چلائی 

بہت زیادہ غصہ آرہا تھا زویا کو رعیان پر لیکن وہ کر بھی تو کچھ نہیں پا رہی تھی 


زویا اپنے گھر پہنچی 

ساری رات اُس کو نیند نہیں آئی کہ رعیان اتنی بدتمیزی کیسے کر سکتا ہے 

کوئی کسی کو ایسے کیسے بول سکتا ہے 

آج سے پہلے تو کسی نے میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی جرات نہیں کی ہے 

آخر مجھے بھی کیا ضرورت تھی اُس کی شرٹ کو اپنے دوپٹہ کے ساتھ صاف کرنے کی 

لیکن ٹھیک ہے جلدی جلدی میں ہوتا ہے غلطی ہوگئی 

لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں وہ کچھ بھی سنا دے گا  مجھے 

اور جناب کو اس قدر غلط فہمی ہے کہ زویا چوھدری اُسکے قریب جانے کیلئے بہانے ڈھونڈے گی 

اف اللہ میں کیوں اُس کے بارے میں اتنا سوچ رہی ہوں 

زویا خود ہی خود میں الجھ رہی تھی 


علی نے رعیان سے پوچھا : رعیان کیا ہوا 

شرٹ پر پانی کیسے گرا 

رعیان نے غصہ سے کہا : وہی پاگل لڑکی سے پھر ٹکر ہوگی لیکن 

اس بار میں نے اسکو ایسا سنایا ہے کہ یاد رکھے گی 

علی نے جلدی سے رعیان سے پوچھا : تو نے کیا کیا ؟؟؟

رعیان نے علی کو ساری بات بتائی 

علی رعیان کی باتیں سن کر بہت خاموش ہوگیا 

اُس کو زویا کیلئے بہت بُرا لگ رہا تھا

علی نے رعیان کو کہا : یہ تو نے کونسی حرکت کی ہے 

لڑکیوں سے اِس طرح بات کرتے ہیں 

ٹھیک ہے مانتا ہوں اُس سے غلطی ہوگئی لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تو اُس کو دھکا دے اور اتنا بُرا بھلا سنائے 

رعیان نے کہا : مجھے جو ٹھیک لگا میں نے وہ کیا 

اُس کو بھی میرے راستے میں نہیں آنا چاہیے تھا اب اگلی بار سو بار سوچے گی مجھ سے بات کرتے ہوئے 

علی نے رعیان کو کہا : تجھے اُس سے معافی مانگنی ہوگی 

رعیان نے حیران ہو کر کہا : بکواس کر رہا ہے میں اور اُس پاگل لڑکی سے معافی مانگوں گا 

ہو ہی نہیں سکتا 

علی نے رعیان کو کہا : میں تیرا بیسٹ فرینڈ ہوں اور میں تجھے کچھ بھی غلط کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا 

تو نے اُس لڑکی کے ساتھ غلط کیا ہے تو اُس کی معافی بھی مانگے گا 

ورنہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا 

رعیان نے علی کو دیکھ کر کہا : تو جانتا ہے صرف تو ہی میری زندگی میں ہے اگر تو بھی مجھ سے بات نہیں کرے گا تو میں کہاں جاؤں گا 

علی نے کہا : تو پھر اُس لڑکی سے معافی مانگ 

رعیان نے کہا : ٹھیک ہے صرف تیرے لئے اُس لڑکی سے بھی معافی مانگ لوں گا

رعیان علی سے بہت محبت کرتا ہے ایک وہ ہی تو ہے اُس کی زندگی میں جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات کہے سکتا ہے 

 

علی نے خوش ہو کر کہا : چل ٹھیک ہے میں پھر اُس لڑکی کا پتہ کرواتا ہوں

 کہاں رہتی ہے ، کیا کرتی ہے 

ویسے اُسنے اپنے نام کیا بتایا تھا 


رعیان نے منہ بنا کر کہا  : زویا چوھدری 

علی نے تنگ کرتے ہوئے کہا : بڑا نام یاد ہوگیا ہے 

رعیان نے غصہ سے کہا : نفرت ہے مجھے اُس لڑکی سے اس لئے 

جب وہ میرے سامنے آتی ہے میرا دماغ خراب ہو جاتا ہے 




زویا صبح یونیورسٹی کیلئے تیار ہو رہی تھی کہ مسلسل اس کے ذہن میں کل والا واقع تھا 

کلثوم بیگم نے آواز دی : زویا جلدی آ جاؤ ناشتہ کر لو 

زویا نیچے پہنچی 

کلثوم بیگم اور جاوید چوہدری دونوں ٹیبل پر بیٹھے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہے تھے 

زویا نے سلام کیا اور کہا : مجھے بھوک نہیں ہے 

میں یونیورسٹی جا رہی ہوں 

آپ لوگ گھا لیں 

کلثوم بیگم نے کہا : زویا روکو 

بیٹا کیا ہوا ہے کچھ پریشان لگ رہی ہو 

زویا نے کہا : نہیں ماما کچھ نہیں ہوا بس بھوک نہیں ہے 

یونیورسٹی جا کر کچھ کھا لوں گی 

جاوید صاحب نے کہا : میری جان ادھر آؤ 

زویا جاوید صاحب کے پاس گئی اور کہا : جی پاپا 

جاوید صاحب نے کہا : کیا بات ہے 

اگر کچھ بات ہوئی ہے 

یا کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ اپنے پاپا کو ؟؟؟

زویا نے مسکرا کر کہا : نہیں پاپا کچھ نہیں ہوا بس سر میں تھوڑا سا درد ہے 

کلثوم بیگم نے کہا : رہنے دو آج پھر یونیورسٹی مت جاؤ 

ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں 

زویا نے ہنس کر کہا : ماما صرف سر میں درد ہے اور آپ ایسے پریشان ہو رہی ہے جیسے پتا نہیں کیا ہوگیا مجھے 

میں ٹھیک ہو جاؤ گی 

آج یونیورسٹی جانا بہت امپورٹنٹ ہے تو میں چلتی ہوں 

بائے 

زویا 

جاوید صاحب نے زویا کو ایک بار پھر بلایا 

زویا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا : جی پاپا 

جاوید صاحب نے کہا : بیٹا اداس مت رہا کرو تمہاری مسکراہٹ دیکھ کر ہی تو ہم لوگ جیتے ہیں 

تمہاری باتیں سن کر ہی تو یہ گھر گھر لگتا ہے 

تم ہی اداس رہوں گی تو ہمارا کیا ہوگا 

چلو ایک پیاری سی مسکراہٹ چہرے پر لاؤ 

زویا نے بھاگ کر جاوید صاحب کے گلے سے لگ گئی 

اور کہنے لگی : پاپا آپ کی زویا بہت مضبوط ہے اُس کو اتنی آسانی سے کوئی نہیں توڑ سکتا 

یہ کہہ کر وہ چلی گئی 


علی نے رعیان کو فون کیا 

رعیان جو ابھی تک سو رہا تھا 

نیند میں اُس نے فون اٹھایا 

اور کہا : ہاں بول کیا کام ہے 

علی نے کہا : میں نے زویا کا پتہ کروا لیا ہے 

شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے 

ہم وہاں جائیں گے تو اُس سے معافی مانگ لینا 

علی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : یار جانا ضروری ہے کیا ؟؟؟

علی نے کہا : ہاں ضروری ہے اب تو تیار ہو جا 


یونیورسٹی میں آکر زویا مسلسل سوچو میں گم تھی 

ارم نے زویا کو دیکھ کر کہا : اب تو بتا دے کل کیا ہوا تھا 

زویا ایک دم چپ رہی 

زویا ارم نے دو تین دفعہ اُس کو آواز دی 

زویا نے کہا : ہاں کیا ہوا 

ارم نے کہا : تجھے کیا ہوا یہ پوچھ رہی ہوں

زویا نے کہا : تجھے پتا ہے وہ بلیک شرٹ والا بندہ کون ہے 

ارم نے بے صبری سے پوچھا : کون ہے 

زویا نے کہا : رعیان سکندر 

ارم نے خوش ہو کر کہا : واہ یہ تو کمال ہی ہوگیا 

مجھے تو پہلے ہی پتا تھا تو کسی عام انسان کو تو پسند کر نہیں سکتی کوئی تو خاص ہے 

تیری اور رعیان کی جوڑی بہت اچھی لگے گی 

زویا نے منہ بنا کر کہا : چپ کر 

ارم نے کہا : کیوں کیا ہوا 

زویا نے ارم کو کل کا سارا واقع بتایا 

ارم نے غصہ سے کہا : میں رعیان کو کیا سمجھتی تھی اور وہ کیا ہے 

مجھے رعیان سے ایسی امید نہیں تھی وہ بھی چھوٹی سی بات کو لے کر 

زویا نے کہا : مجھے خود یہ ہی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو لے کر وہ کیسے کر سکتا ہے 

ارم نے کہا : ویسے اگر رعیان کی جگہ کسی اور نے ہمت کی ہوتی تو نے تو اُس کا منہ ہی توڑ دینا تھا 

زویا نے کہا : مجھے خود پر بھی غصہ آرہا ہے 

وہ مجھے اتنا سناتا ہے میں کچھ بول ہی نہیں پاتی ہوں 

وہ سامنے آتا ہے تو میرا دل کرتا ہے بس دیکھتی رہوں 

اُس کے علاؤہ کسی اور کی اتنی ہمت آ تک نہیں ہوئی کہ زویا چوھدری سے کوئی اونچی آواز میں بھی بات کر کے لے

ویسے محبت بھی کیا چیز ہے نہ اُسکی ہر چیز برداشت کرنے کو دل کرتا ہے 

آج پہلی بار اُس کی وجہ سے میں پریشان ہوئی ہوں ورنہ میرے پاپا نے کبھی مجھے پریشان ہی نہیں ہونے دیا 

آج پہلی بار میں نے اپنے پاپا اور ماما سے جھوٹ بولا اُس کی وجہ سے وہ مجھے سے پوچھتے رہے کہ میں کیوں پریشاں ہوں لیکن میں نے کہے دیا میرے سر میں درد ہے 


ارم نے زویا کو تلسی دیتے ہوئے کہا : سب ٹھیک ہو جائے گا 


علی اور رعیان دونوں یونیورسٹی پہنچ گئے 

سب لڑکیاں رعیان کو دیکھ رہی تھی 

سب لڑکیاں رعیان رعیان کر رہی تھی 

لیکن وہ جس سے ملنے آیا تھا وہ اُس کو کہیں نہیں دیکھائی دے رہی تھی 

رعیان یونیورسٹی کے چیئرمین سے ملا 

کوئی بہانہ تو کرنا تھا 

رعیان نے چیئرمین کو مخاطب کر کے کہا : الیکشن ہونے والے ہیں تو ہم نے سوچا یونیورسٹی آکر نوجوانوں کے سامنے بھی تھوڑا بہت خطاب کیا جائے 

چیئرمین نے جواب دیا : سر آپ ہماری یونیورسٹی میں آئے ہمارے لئے یہ بہت عزت کی بات ہے 

رعیان نے مسکرا کر کہا : تو پھر میں یونیورسٹی گھوم آتا ہوں 

چیئرمین نے کہا : میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں 

رعیان نے مسکرا کر کہا : آپ بیٹھیں 

میرے ساتھ میرا دوست آیا ہوا ہے میں اُس کے ساتھ گھوم آتا ہوں 

یہ کہہ کر وہ کرسی سے اٹھا اور چلا گیا 



رعیان نے علی سے مخاطب کر کے کہا : علی تو نے مجھے کس مصبیت میں ڈال دیا ہے اُس لڑکی کی وجہ سے مجھے پتا نہیں کیا کیا جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں 

علی نے کہا : تو غلطی بھی تو تجھ سے ہوئی ہے 

چل اب کینٹین جاتے ہیں شاید وہاں ہو 

زویا اور ارم سامنے سے آرہی تھی 

زویا موبائل چلا رہی تھی 

رعیان علی سے بات کر رہا تھا 

زویا اور رعیان کی زور سے ٹکر ہوئی 

رعیان کا بازو زویا کی بازو سے اتنی زور سے ٹکرایا 

زویا گرنے ہی والی تھی کہ رعیان نے زویا کا ہاتھ پکڑا لیا 

زویا کا چہرہ نیچے زمین کی جانب تھا جس کی وجہ سے وہ رعیان کو نہیں دیکھ سکی 

زویا نے غصہ سے کہا : اندھے ہو کر چلتے ہو کیا 

رعیان نے زویا کے ہاتھ کو اوپر کی جانب کھینچا  

زویا ایک دم رعیان کو سامنے دیکھ حیران و پریشان تھی 

رعیان نے کہا : دیکھ تو آپ بھی چل سکتی تھی 

زویا نے  ہنس کر کہا : شکر کریں آپ ہیں ورنہ اگر مجھے کوئی اور یہ بولتا تو اچھے سے بتاتی میں 

رعیان نے کہا : کیا کرتی آپ ؟؟؟

زویا نے کہا :  یونیورسٹی میں جس سے مرضی آپ پوچھ سکتے ہیں سب آپ کو میرے بارے میں بتا سکتے ہیں میں کیا کر سکتی ہوں 

یہ کہہ کر زویا جانے لگی 

رعیان نے علی کو کہا : ایٹیٹیوڈ دیکھا ہے تو نے اس کا مجھے بہت نفرت ہے 

علی نے کہا : تجھے بس کل کے لئے معافی مانگنی ہے 

رعیان نے کہا : روکو زویا میں نے تم سے بات کرنی ہے 

وہ زویا کے سامنے آیا 

زویا نے کہا : بولو 

رعیان نے کہا : میں کل کیلئے سوری بولنے آیا ہوں 

زویا نے کہا : کیا کہا آپ نے سوری اور آپ اتنی عقل کہاں سے آگئی آپ میں ؟؟؟

رعیان نے کہا : دیکھو مجھے پتہ ہے کل جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا میں غصہ میں تھا اس لئے جو منہ میں آیا وہ بول دیا 

زویا نے کہا : غصہ نکالنے کیلئے صرف میں ہی ملی تھی 

رعیان نے کہا : اب معافی مانگ رہا ہوں نہ سوری بس 

زویا نے مسکرا کر کہا : زویا کا دل بہت بڑا ہے اس لئے جاؤ معاف کیا 

لیکن ہاں ایک بات یاد رکھنا زویا چوھدری باقی لڑکیوں جیسی نہیں ہے 

رعیان بنا کچھ بولے علی کے پاس گیا اور کہا : اب چلو کام ہوگیا 

زویا نے تنگ کرتے ہوئے کہا : ارے تک جائیں تھوڑا ہمیں بھی موقع دیں آپ کی خدمت کرنے کا 

رعیان نے پیچھے دیکھ کر جواب دیا : پہلی بات میں ابھی تک ایم این اے بنا نہیں ہوں اور دوسری بات میرے پاس اور بھی بہت سے کام ہیں 

زویا نے مسکرا کر کہا : ایم این اے تو آپ ہی بنیں گے

رعیان نے کہا : اور یہ تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہے سکتی ہو 

زویا نے ہنس کر کہا : کیونکہ میں جانتی ہوں اگر میں نے آپ کو ووٹ دیا تو پکا ہی آپ جیتے گے

رعیان نے کہا : اگر تم نے مجھے ووٹ دیا تو میں پکا ہی ہار جاؤ گا 

اس سے اچھا ہے تم مجھے ووٹ دینا بھی نہیں 

یہ کہہ وہ رعیان وہاں سے چلا گیا 

زویا نے منہ بنا کر کہا : کھڑوس کہیں کا 

علی زویا کے پاس آیا اور کہا : میں معافی مانگتا ہوں کل رعیان نے جو بھی کیا وہ نہیں کرنا چاہیے تھا 

میں جانتا ہوں وہ سب غلط کیا اُس نے لیکن یقین کریں وہ دل کا بُرا نہیں ہے 

بس زندگی نے اُس کو تلخ بنا دیا ہے 

زویا نے مسکرا کر کہا : انہوں نے مجھ سے معافی مانگی میں سب کچھ بھول گئی  



جاری ہے .......

Post a Comment

Previous Post Next Post