Tumhara milna ek khuwab sa | Urdu Novel | Episode 2 | Urdu Life 77

 ناول 

تمہارا ملنا ایک خواب سا 

قسط 


Tumhara milna ek khuwab sa | Urdu Novel | Episode 2 | Urdu Life 77

کائنات کالج پہنچی اس کی دوستی بھی اس کی طرح ہائے کلاس کی تھی کالج میں اس کا الگ ہی روب ہوتا تھا 

(کائنات کو دیکھ کر مہوش نے فوراً سے کہا) 

کہاں رہ گئی تھی میڈم اتنی دیر سے کیوں آئی ہو 

(کائنات نے منہ بنا کے کہا)

 یار مت پوچھو ڈرائیور نے دیر کروا دی 

کائنات مہوش  کے ساتھ باتیں کرتی جارہی تھی کہ اچانک اس کی ٹکر فہد سے ہوگی

یہ  کیا بدتمیزی ہے دیکھ کر نہیں چل سکتے تم 

(کائنات نے غصے سے فہد کو دیکھ کے کہا)

 فہد نے کہا دیکھ کر تو آپ بھی چل سکتی تھی اندھی تو آپ بھی ہوئی

اور ویسے بھی غلطی آپ کی ہے تو مجھے بولنے کے بجائے اگر آپ خود دیکھ  کر چلیں تو بہتر ہوگا 

 کائنات کو فہد پر اور غصے آیا 

آج سے پہلے کسی کے اس کو اِس طرح منہ توڑ جواب نہیں دیا تھا 

تم جانتے نہیں میں کون ہوں اور میں تمہارے ساتھ کیا کیا کر سکتی ہوں ابھی اور اسی وقت تمہیں کالج سے باہر نکلوا سکتی ہو 

(کائنات نے اترا کر کہا) 

(جواباً فہد نے بھی اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا) 

میڈم آپ کون ہے میں نہیں جانتا اور نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے جاننے میں تو مہربانی کرکے آپ سائیڈ پر ہو جائیں اور مجھے جانے دیں یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا

کائنات کینٹین میں  منہ بنا کر بیٹھی   تھی کہ (مہوش نے کائنات کو  مخاطب کر کہ کہا)

یار وہ تو تیری سب کے سامنے بےعزتی کر کے چلا گیا اور  تو خاموش رہیں 

کائنات جو کہ پہلے ہی غصے میں بیٹھی تھی مہوش کی یہ بات سن کے اور ہوگی 

نہیں چھوڑوں گی میں اس کو 

 اب اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گی 

 وہ سمجھتا کیا ہے کہ وہ کائنات مرزا کی بےعزتی کرے گا  اور کائنات چپ رہے گی

 اس کو مجھ سے الجھنا بہت مہنگا پڑے گا

 گھٹنوں کے بل بیٹھا کے اس سے معافی نہ منگوائیں تو میرا نام بھی  کائنات مرزا نہیں یو جسٹس ویٹ اینڈ واچ

(کائنات نے سخت غصے میں کہا)

مہوش تم  پتہ کرواہ  کہ یہ کون ہے اس کا نام کیا ہے اور یہ کہاں سے آیا ہے سب کچھ ساری انفارمیشن نکال کے مجھے فون کرنا ٹھیک ہے


پاپا آپ نے کسی ڈرائیور کا پتا کروایا 

(عبداللہ جو کہ کھانے کے ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا کائنات اس سے مخاطب ہو کے بولی) 

ہاں بیٹا میں نے ڈرائیور کا انتظام کروا لیا ہے کل صبح وہ آجائے گا میری پرنسز کو لینے (عبداللہ نے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا)

 تھینک یو پاپا یو آر دا بیسٹ پاپا (کائنات نے اپنے پاپا سے کہا) 

اتنے میں کائنات کی دادی وہاں آ گئی 

کائنات نے اپنی دادی کو سلام کیا لیکن سامنے سے اس کو کوئی جواب نہیں ملا 

کائنات حیران ہوئی کہ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا 

وہ دادی کے پاس گئی جو کہ صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی میری پیاری اماں جان 

(کائنات اپنی دادی کو پیار سے اماں جان کہتی ہے)

 کو کیا ہوا ناراض ہے کیا میری اماں جان مجھے سے (کائنات نے گلے لگا کر کہا)

 دادی نے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا مجھ سے بات مت کرو

( کائنات نے کہا  لیکن کیوں کیا ہوا اماں)

 دادی نے غصے سے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ صبح ڈرائیور کو کیوں نکالا بیچارے کی کیا غلطی تھی 

(کائنات نے کہا) کہ تو کیا اماں ڈرائیور کی وجہ سے  آپ مجھ سے ناراض ہیں

 آمنہ صاحبہ(کائنات کی دادی) نے کہا

ہاں کیوں نہیں ہو سکتی کیا ناراض غلط کام کروں گی تو ناراض تو ہو گی نہ تم کیوں بھول جاتی ہو کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں تم  کیسے کسی کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتی ہو تم نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہ کیسے اپنے گھر کی ضرورتیں پوری کرے گا اس کی بیٹی ہسپتال میں بیمار پڑی ہے اور تم نے اس کو نوکری سے نکال دیا

 (کائنات نے کہا) ا

ماں تو یہ میرا کام نہیں سوچنا 

اس کا کام ہے سوچنا 

اس کو سوچنا چاہئے تھا نہ کہ وہ اپنا کام وقت پر کرے

اپنی اوقات بھول گیا تھا اور زیادہ ہی کچھ بن رہا تھا اور مجھے ایسے انسانوں کو انکی اوقات دکھانا بہت اچھے سے آتا ہے وہ یہ کہہ کر چلی گئی 

عبداللہ صاحب جو کہ کھانا کھا رہا تھا اٹھ کے اپنی امی کے پاس آیا

 اور کہا آپ نے کیوں اس کو ناراض کردیا 

 تم نے ہی اس کو سر پہ چڑھا رکھا ہے اس کو بڑوں چھوٹوں کی تمیز ہی نہیں ہے اس کو 

اپنے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا

( آمنہ صاحب نے ناراضگی سے کہا) امی آپ کیوں ناراض ہو رہی ہیں میں نے اس کی دوسری ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے اور اس کی بیٹی کے ہسپتال کا  خرچہ بھی دے دیا  ہے 

(  ماں نے کہا)

آخر کب تک تم اس کی غلط حرکتوں پر پردہ ڈالتے رہوں گے اس کو سمجھاتے کیوں نہیں ہو 

(آمنہ بی بی عبداللّٰہ کو سمجھاتے ہوئے کہا)

اماں کائنات کی ماں کے جانے کے بعد میری پوری دنیا کائنات ہی ہے 

اب میں اس کو نہیں کھونا چاہتا 

 وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے وہ 

   بھی سیکھ جائے آہستہ آہستہ 

 لیکن آپ پلیز کائنات کو نہ ڈانٹا کریں اس کی آنکھوں میں آنسو آتے  ہیں تو تکلیف مجھے ہوتی ہے

 مجھ سے اس کی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی اس لیے وہ جیسا بولے گی ویسی ہی ہوگا 

 (عبداللہ صاحب نے اپنا آخری فیصلہ سناتے ہوئے کہا)

 تم اور تمہاری وہ ضدی بیٹی  اپنی مرضی کرتے ہو میری تو اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے کوئی بات ہی نہیں مانتا میری 

 (آمنہ صاحبہ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا) 

 عبد اللہ صاحب اب کی بار ان کے پاس بیٹھ کر کہنے لگے

 اماں آپ جانتی ہیں کہ کائنات اور میں ہم دونوں آپ سے بہت محبت کرتے ہیں 

 اب چلیں کائنات کو منا کر آتے ہیں ورنہ اس نے رو رو کے پورا کمرہ سمندر بنا دینا ہے



ہیلو کائنات مہوش نے  فون کی دوسری طرف سے کہا

کائنات نے کہا بولو کیسے فون کیا

مہوش نے کہا میں نے اس لڑکے کے بارے میں سب پتہ کرواہ لیا ہے 

کائنات نے کہا جلدی بتاؤ کون ہے وہ اور کس بزنس مین کا بیٹا ہے جو اس میں اتنی اکڑ ہے 

مہوش نے کہا تو اس کی حقیقت جانے کی تو تُوں بھی حیران ہو جائے گی جیسے میں ہوگی ہوں 

کائنات نے کہا یار پہیلیاں کیوں بجھا رہی ہے جلدی بتا مجھے 

(مہوش کا کہا) کہ اس کا نام فہد ہے 

 اور اس نے اسکالرشپ کے ذریعے اس کو اِس کالج میں داخلہ ملا ہے 

ورنہ اس کے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں کہ شہر کے سب سے بڑے کالج میں پڑھ سکے اس کے ابو ایک چھوٹی موٹی پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں گھر کی ضرورتیں ہی بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے 

کائنات کو بہت حیرانی ہوئی یہ باتیں سن کر اور اس نے کہا مہوش اوقات اس کی کیا ہے اور وہ کیا بن رہا ہے لگتا ہے اوقات بھول گیا ہے اپنی اتنے بڑے کالج میں داخلہ ملنے کے بعد کل اس کو اچھے سے یاد کرواؤں گی کہ اس کی اوقات کیا ہے 



 فہد بھائی آپ کو ابو بلا رہے ہیں (فہد کی  چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہو کر  بولی ) 

جی ابو آپ نے  بلایا (فہد اپنے ابو سے مخاطب ہو کر بولا)

 تم سے ایک بات کرنی ہے  تم جن صاحب کے گھر ڈرائیونگ کرتے ہو نہ  وہ ایک سال کے لیے امریکہ جا رہے ہیں لیکن ان کے ایک دوست ہیں جن کو ڈرائیور کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنے دوست کو تمہارے بارے میں بتایا تو ان کے دوست نے کہا ٹھیک ہے 

 (فہد کے ابو نے فہد کو بتاتے ہوئے کہا)

  فہد نے کہا  ٹھیک ہے ابو میں چلا جاؤں گا وہاں کب جانا ہے 

صبح جانا ہے اور یہ  ان کے گھر کا پتہ ہے 

(فہد کے ابو نے اُس کو چھوٹے سا کاغذ کا ٹکڑا دیتے ہوئے کہا) 

ٹھیک ہے وہ چلا جاؤں گا وہ یہ کہہ کر چلا گیا 

وہ سونے کے لئے بیٹ  پر لیٹا تو اس کو کالج میں ہونے والا واقعہ یاد آ گیا 

وہ سوچنے لگا تو اس کے چہرے پر ایک دم سے مسکراہٹ آگئی 

اور وہ سوچنے لگا کہ کتنی پاگل لڑکی تھی وہ پتہ نہیں کون تھی نام بھی نہیں بتایا اور لڑائی کر کے چلی گی 


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Post a Comment

Previous Post Next Post