Pehli Nazar ki Mohabbat | Urdu Short Novel | First Sight Love Urdu best Novel | Episode 3

 ناول :  پہلی نظر کی محبت 

قسط 3 




آشنا گھبراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی 

اُس کے چہرے سے اُس کی گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی 

مومل کمرے میں داخل ہوئی

 مومل آشنا کو دیکھ کر ڈر گئی 

مومل نے آشنا کے پاس آکر پوچھا : آشنا کیا ہوا تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو 

آشنا یک دم خاموش رہی 

مومل کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا 

اُس نے ایک بار پھر پوچھا 

آشنا نے گھبراتے ہوئے کہا : وہ عابد بھائی 

......

یہ کہہ کر آشنا چپ ہوگئی ، اِس کے آگے اُس کی بولنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی 

مومل نے پریشان ہو کر کہا : بتاؤ آگے کیا عابد بھائی ، انہوں نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟؟

مومل بھی عابد کی حرکتوں سے بہت اچھی طرح واقف تھی 

آشنا مومل کے گلے سے جا لگی 

آشنا بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی 


مومل نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : یار بتاؤ نہ مجھے کیا بات ہے مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے 

آشنا نے مومل کو کچن میں ہونے والا سارا قصہ سنایا 

مومل نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : مانتی ہوں عابد بھائی فلٹ کرتے ہیں لیکن وہ اتنا گر جائے گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا 

آشنا نے ڈرتے ہوئے کہا : مجھے خود سمجھ نہیں آرہا ہے کیا کروں 

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے 

مومل نے آشنا کو سنبھالتے ہوئے کہا : ڈرو مت ، تم جتنا ڈرو گی وہ تم کو اتنا ہی تنگ کریں گے  

آشنا نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا : صحیح بول رہی ہو 

مومل نے آشنا کو کہا : ہم گھر میں عابد بھائی کی اِس حرکت کا سب کو بتا دیتے ہیں 

 آشنا نے مومل کو منع کرتے ہوئے کہا : نہیں ابھی صحیح وقت نہیں ہے 

گھر میں سب بہت خوش ہیں اور میں اپنی وجہ سے کومل آپی کی شادی خراب نہیں کرنا چاہتی 

شادی ہونے کے بعد میں خود پاپا کو سب بتا دوں گی 

مومل نے آشنا کو سمجھاتے ہوئے کہا : ٹھیک ہے لیکن اب اگر عابد بھائی کوئی بھی بات کریں تو ان کو منہ توڑ جواب دیا ہے 




عدیل کرسی پر بیٹھا تھا 

ہاتھ میں اُس کے آشنا کا جھمکا تھا 

آشنا جب عدیل کے گلے سے لگی تھی تب ہی اُس کا ایک جھمکا وہاں ہی گر گیا تھا 

عدیل نے جاتے ہوئے اُس کا جھمکا نیچے دیکھا تو اٹھا لیا 


عدیل آشنا کے بارے میں سوچ رہا تھا 

کتنی خوبصورت لڑکی تھی وہ 

اُس کی آنکھیں کسی جھیل کی گہرائی سے کم نہیں تھی دل کرتا اُس کی آنکھوں میں ڈوب جاؤ 

گھبراتی ہوئی اتنی حسین لگ رہی تھی مسکراتی ہوئی کتنی لگتی ہوگی 

میں نے تو اُس سے نام بھی نہیں پوچھا ، پتا نہیں کون تھی کہاں سے آئی تھی 

پتا نہیں ہماری پھر کبھی ملاقات ہو گی یا نہیں 

عدیل آشنا نے جھمکے کو دیکھے یہ سب سوچ رہا تھا 

اتنے میں عمیر کی کال آگئی 

عدیل نے فون اٹھاتے ہوئے کہا : بولو کیا کام ہے ؟؟؟

عمیر نے عدیل کو جواب دیتے ہوئے کہا : کل تجھے میرے ساتھ شوپنگ پر جانا ہے 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : وہ کیوں ؟؟؟

عمیر نے مسکرا کر کہا : میں نے ہرا کیلئے اچھا سا گفٹ لینا ہے 

عدیل نے حیران ہو کر پوچھا : یہ ہرا کون ہے ؟؟؟

عمیر نے ہنس کر کہا : ہرا میری کزن ہے اور ہمارا اگلے مہینے میں نکاح ہے 

تو پرسوں اُس کی برتھ ڈے ہے تو اُس کیلئے گفٹ لینے جانا ہے 

عدیل نے خوش ہو کر کہا : توں نکاح کر رہا ہے 

عمیر نے ہنس کر کہا : جی ہاں اب سب تیری طرح تو نہیں ہے کے کوئی لڑکی ہی پسند نہ آئے 

ایک بات تو بتا ، تیرا شادی کرنے کا بھی کوئی ارادہ ہے یا پھر کنوارہ ہی مرنا ہے 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : 

ویری فنی 

شادی تو کروں گا میں اور کیا پتا تیرے سے جلدی میں شادی کر لوں 

عمیر نے تنگ کرتے ہوئے کہا : شادی کیلئے ایک عدد دلہن کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، وہ کہاں ہے ؟؟؟

عدیل نے مسکرا کر کہا : راستہ میں ہوگی شاید 

عمیر نے مسکرا کر کہا : بول تو ایسے رہا ہے جیسے تو نے لڑکی پسند کر لی ہو 

عدیل نے ہنس کر کہا : ہو سکتا ہے 

عمیر نے حیران ہو کر کہا : سچ بتا 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : بکواس بند کر اب سو جا مجھے بھی نیند آرہی ہے 

یہ کہہ کر اُسنے فون رکھ دیا 




عدیل نا چاہتے ہوئے بھی آشنا کے بارے میں بار بار سوچ رہا تھا 

عدیل خود سے ہی باتیں کیے جا رہا تھا 

وہ لڑکی میرے دماغ میں اتنی سوار کیوں ہوگئی ہے 

کچھ تو خاص ہے اُس میں 

لیکن میں اُس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہوں 

وہ میرے لئے صرف اجنبی تھی ، اور میں اُس کیلئے پھر کیوں وہ مجھے یاد آرہی ہے 

عدیل عجیب سوالات میں خود کو خود ہی الجھا رہا تھا 




مومل کمرے میں آئی تو آشنا سوئی ہوئی تھی 

مومل نے آشنا کو اٹھاتے ہوئے کہا : آشنا اٹھو یار شوپنگ پر جانا ہے 

آشنا جو کہ گھوڑے بیج کر سو رہی تھی 

اُس کی آواز کو نظر انداز کر کے پھر 

سو گئی 

مومل نے اُس کے اوپر سے چادر کھینچتے ہوئے کہا : آشنا یار اٹھ بھی جاؤ اب اور کتنا سوگئی 

آشنا نیند میں کہنے لگی : مومل یار کیا مسئلہ ہے سونے دو 

مومل بے بیزار ہو کر کہا : مومل کی بچی ، اٹھو ورنہ پانی کا پورا جگ اوپر ڈال دوں گی 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : اچھا بابا اٹھتی ہوں 

یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی 


سب نے مل کر ناشتہ کیا 

مومل (نور بیگم) سے مخاطب ہو کر بولی : ماما میں نے اور آشنا نے شوپنگ پر جانا ہے تو ہم لوگ کس کے ساتھ جائیں 

نور بیگم نے جواب دیتے ہوئے کہا : اپنے عادل بھائی کے ساتھ جاؤں 

 عادل جو کہ موبائل چلا رہا تھا

 فون رکھ کر کہنے لگا : ماما میں نے آج ہال دیکھنے اور اُس کی بکنگ کروانے جانا ہے تو میں آج ذرا مصروف ہوں 

نور بیگم نے کہا پھر عابد کے ساتھ تم دونوں چلی جاؤ 

آشنا نے زور سے بولتے ہوئے کہا : نہیں 

آشنا نے جلدی سے اپنی زبان اپنے دانتوں میں رکھی 

آشنا اور مومل دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگی 

نور بیگم نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : آشنا کیوں عابد کے ساتھ نہیں جانا ؟؟؟

آشنا ایک دم گھبرا گئی 

اِس سے پہلے آشنا کچھ بولتی عادل نے نور بیگم کو مخاطب کر کے کہا : ماما عابد میرے ساتھ جائے گا 

ہم نے واپسی پر شادی کے کارڈز بھی دینے ہیں تو آپ ان کو وحید کے ساتھ بھیج دیں 

مومل اور آشنا دونوں نے سکھ کا سانس لیا 

مومل نے فورا سے کہا : ہاں ماما یہ ٹھیک ہی ہم لوگ وحید بھائی کے ساتھ شوپنگ پر چلے جائیں گے 




مومل وحید سے مخاطب ہو کر بولی :  وحید بھائی آپ گاڑی نکالیں ہم بس تیار ہو کر آتے ہیں 

آشنا اور مومل دونوں کمرے میں آئیں 

مومل نے آشنا کو دیکھ کر کہا : یار شکر ہے عادل بھائی نے ہمارے بولنے سے پہلے سے بول دیا ورنہ کیا بولتے 

آشنا نے غصہ سے کہا : میں مر جاتی لیکن اُس کے ساتھ شوپنگ پر نہیں جاتی اُس سے بہت نفرت ہونے لگی ہے 

مومل نے آشنا کو کہا : اچھا اب چل تیار ہو جا وحید بھائی ہمارا انتظار کر رہے ہونگے 



آشنا نے آج گرین رنگ کی ڈریس پہنی تھی

 بالوں میں اونچی کر کے ہائے پونی کی ہوئی تھی 

ہلکی سی پنک رنگ کی لپسٹک  لگائی ہوئی تھی 

آشنا نے مومل کو آواز دیتے ہوئے کہا : مومل یار دیکھو میرا ایک جھمکا نہیں مل رہا ہے 

مومل نے آشنا کو دیکھ کر کہا : دیکھ یہاں ہی کہی ہوگا 

آشنا نے پریشان ہو کر کہا : نہیں ہے میں نے ہر جگہ ڈھونڈ لیا 

ایک جھمکا پڑا ہوا ہے اور ایک نہیں ہے 

مومل نے آشنا کو پریشان دیکھتے ہوئے کہا : آشنا میں تجھے اپنے کوئی ایئر رنگز دے دیتی ہوں 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : نہیں مجھے یہ ہی والے چاہیئے مجھے لگتا ہے کہی گر گئے ہونگے 


مومل اور آشنا نے پورا کمرا دیکھ لیا لیکن جھمکا کہی نہیں ملا 

مومل نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : اگر یہاں گرا ہوتا تو مل جاتا کہی اور گرا ہو شاید 

آشنا نے غصہ سے کہا : کہی اور کہاں گرا سکتا ہے 

اُس نے ایک دم زور سے کہا : ہاں 

مومل نے آشنا سے پوچھا : کیا ہاں 

آشنا نے مومل کو کہا : میرا جھمکا اُس لڑکے کے پاس ہو سکتا ہے 

مومل نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : کس لڑکے کے پاس ؟؟؟

آشنا نے کہا : کل جب ہم لوگ تمہارے گھر آرہے تھے تو ہم نے ایک ہوٹل پر کھانا کھایا تھا وہاں میں پہاڑی کے اوپر چھڑی تھی نیچھے واپس آنے لگی تو میرا پیر سلب ہوگیا 

تب مجھے ایک لڑکے کے ہاتھ سے پکڑا تھا اور میں زور سے اُس کے سینے سے جا لگی 

مجھے لگتا ہے اِس ہی چکر میں میرا جھمکا وہاں گرا گیا ہوگا 

اور اُس لڑکے نے میرا جھمکا اٹھا لیا ہوگا 

مومل نے ہنس کر کہا : اور وہ لڑکا تیرے جھمکے کا کیا کریں گا ؟؟؟

آشنا نے مومل کو کہا : جو بھی ہو اُس نے ہی لیا ہوگا ، ملنے دو مجھے ذرا اُس لڑکے سے پھر ایسا سبق سیکھاوں گی یاد رکھے گا 

جھمکا چور کہی کا 

مومل نے مسکرا کر کہا : اُس کو سبق بعد میں سیکھانا اب چلو وحید بھائی ہمارا انتظار کر رہے ہونگے 





وہ دونوں شاپنگ سینٹر کے اندر داخل ہوئیں 

وحید بھی ان کے ساتھ ہی تھا 


عدیل اور عمیر بھی اُس ہی شوپنگ  سینٹر پے آئے جہاں آشنا پہلے سے ہی شوپنگ کر رہی تھی 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : تو کہاں مجھے بور سی جگہ لے آیا ہے 

عمیر نے عدیل کے چہرے کو دیکھ کر کہا : تیرا دماغ ہی خراب ہے 

تجھے کوئی جگہ اچھی ہی نہیں لگ رہی ہے تو ایسا کر ابھی اِسی وقت واپس امریکا چلا جا ہم لوگ پر احسان ہوگا 

عدیل نے عمیر کو جواب دیتے ہوئے کہا : میرا بس چلے تو ابھی چلا جاؤں  

عمیر نے تنگ کرتے ہوئے کہا : امریکا بس میں نہیں ہوائی جہاز میں جاتے ہیں 

عدیل نے ہنس کر کہا : فالتو کے مذاق مت کرنا اب چل 

عمیر ہرا کیلئے ایک اچھی سی انگھوٹی لینے آیا تھا 

وہ عدیل کے ساتھ انگھوٹی والی دکان پر کھڑا تھا 

آشنا نے مومل سے پوچھا : مومل تمہیں کچھ پسند آیا

مومل نے پنک رنگ والے لہنگے کی طرف اشارا کر کے کہا : وہ پنک والا دیکھو اچھا ہے 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : مجھے تو اچھا نہیں لگ رہا ہے 

مومل نے پریشان ہوتے ہوئے کہا : تو پھر کوئی اور پسند کر لو جلدی سے 

پورا شوپنگ سینٹر گھوم لیا اب تک تمہیں ایک جوڑا اچھا نہیں لگا 

آشنا نے مہرون رنگ والے لہنگے کی طرف اشارہ کرکے کہا : بھائی وہ دیکھا دیں 

آشنا نے مومل کو مخاطب ہو کر کہا : یہ لو جاؤں اب اس کو ٹرائی کر کے دیکھو 

مومل نے حیران ہو کر بولا : میں ٹرائی کروں 

آشنا نے مومل کو لہنگا ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا : جی ہاں تم اب جاؤ 

مومل واش روم میں گئی 

وحید دونوں سے پاس کھڑا ان کو دیکھ رہا تھا 

وحید کی ایک فون کال آگئی تو وہ اُس کو سننے میں مصروف ہوگیا 



سامنے ہی انگھوٹیوں والی دکان تھی 

آشنا وہاں چلی گئی 

آشنا وہاں انگھوٹیاں دیکھ رہی تھی 

اچانک سے عدیل کی نظر آشنا پر پڑی 

وہ ایک دم آشنا کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوگیا 

وہ اُس کو دیکھتا ہی رہا 

آشنا نے دکان دار سے مخاطب ہو کر کہا : بھائی یہ سفید رنگ میں جو ایک نگ والی انگھوٹی ہے 

یہ دیکھا دیں 

دکان دار نے آشنا کو کہا : سوری میڈم یہ کسی اور کی ہے 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : کیا مطلب کسی اور کی ہے 

دکاندار نے آشنا کو جواب دیتے ہوئے کہا : میڈم یہ سیل ہو چکی ہے 

آشنا نے غصہ سے کہا : اگر ہو چکی ہے سیل تو یہاں آپ نے کیوں رکھی ہے 

مجھے کچھ نہیں پتا مجھے یہ ہی  انگھوٹی چاہیئے 

میں آپ کو اِس کے زیادہ پیسے دے دوں گی لیکن مجھے یہ والی ہی انگھوٹی چاہیئے 

دکاندار نے معذرت کرتے ہوئے کہا : سوری میڈم 

آشنا آشنا وحید اُس کو ڈھونڈتے ہوئے اُس دکان میں پہنچا 


عدیل سب دیکھ رہا تھا 

عدیل نے دل میں کہا : تو آشنا نام ہے اِس لڑکی کا 

آشنا نے وحید کو دیکھتے ہوئے کہا : وحید بھائی مجھے یہ انگھوٹی چاہیئے اور دیکھیں نہ مجھے یہ نہیں دے رہے ہیں 

دکاندار نے وحید کو مخاطب کر کے کہا : سر ہم میڈم کو بار بار کہے چکے ہیں یہ سیل ہو چکی ہے لیکن یہ سمجھ ہی نہیں رہی ہیں 

عاصم نے آشنا کو ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کہا : آشنا چلو یہاں سے میں تمہیں اِس سے زیادہ اچھی انگھوٹی لے کر دوں گا 

آشنا کو نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے جانا پڑا 

عدیل ایک دم چپ ہوگیا جب وحید نے آشنا کا ہاتھ پکڑا 

عمیر جو کہ انگھوٹیاں دیکھ رہا تھا 

پیچھے مڑ کر دیکھا تو عدیل کا رخ دوسری جانب تھا 

اُس نے عدیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا : سب کچھ ٹھیک ہے ؟؟؟

عدیل نے کہا : آشنا 

عمیر نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : کون آشنا 

عدیل نے عمیر کو جواب دیتے ہوئے کہا : کوئی نہیں تو انگھوٹی پسند کر میں ابھی آتا ہوں 

عدیل اُس دکاندار کے پاس گیا اور پوچھا : وہ جو ابھی میڈم آئی تھی انہوں نے کون سی انگھوٹی پسند کی تھی ؟؟؟

دکاندار نے کہا : سر وہ پہلے سے سیل ہو چکی ہے 

عدیل نے دکاندار کی طرف دیکھ کر کہا : میں صرف پوچھ رہا ہوں وہ کونسی انگھوٹی تھی 

دکاندار نے سفید انگھوٹی کی طرف اشارا کر کے بتایا 

عدیل نے دکاندار سے سوال کیا : کیا اِس ہی ڈیزائن میں دوسری انگھوٹی بن سکتی ہے ؟؟؟

دکاندار نے جواب دیا : ہاں سر

عدیل نے مسکرا کر کہا : گڈ اب یہ پیسہ لیں اور مجھے بلکل ایسی ہی انگھوٹی بنا کر دیں 

دکاندار نے کہا : سر دو دن لگ جائے گے 

عدیل نے دکاندار سے کہا : ٹھیک ہے میں پھر آ کر لے جاؤں گا 


عدیل نے عمیر کو مخاطب کر کے کہا : تو نے لے لی انگوٹھی 

عمیر نے مسکرا کر کہا : ہاں ، لیکن تو نے انگھوٹی کیوں بنوانے کیلئے دی ہے 

عدیل نے بات کو تالتے ہوئے کہا : مجھے پسند آگئی تو میں نے لے لی 

اب چل مجھے بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے چلتے ہیں 



مومل نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : آشنا یار تمہیں کچھ پسند ہی نہیں آتا 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : جو پسند آتا ہے وہ کونسا مل جاتا ہے 

مومل نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : اور وہ کیا ؟؟؟

آشنا نے دکھی بھرے لہجے میں کہا : تجھے پتا ہے مجھے ایک انگھوٹی بہت پسند آئی تھی لیکن وہ پہلے سے ہی کسی نے لے لی تھی 

مومل نے ہنس کر کہا : چل ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوتا 

اب کچھ گھر چلتے ہیں 




عدیل کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ تھی 

عمیر نے عدیل کو مخاطب ہو کر کہا : پہلے تو تجھے یہاں مزہ نہیں آرہا تھا اور اب بڑا مسکرایا جا رہا ہے 

عدیل نے مسکرا کر کہا : ویسے اتنا بُرا بھی نہیں ہے 

عمیر نے تنگ کرتے ہوئے کہا : کون شوپنگ سینٹر یا اسلام آباد 

عدیل نے ہنس کر کہا : دونوں

عمیر نے خوش ہو کر کہا : اچھا پھر یہ بتا کہ یہ تبدیلی کیسے آئی ؟؟؟

عدیل نے بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا : کونسی تبدیلی ؟؟؟

عمیر نے کہا : چل پھر یہ بتا آشنا کون ہے ؟؟؟

عدیل نے کہا : مجھے کیا پتا آشنا کون ہے 

عمیر نے عدیل کو دیکھ کر کہا : مجھے تجھے تجھ سے زیادہ پہنچاتا ہوں تو مجھے سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے 

اب شرافت کے ساتھ بتا آشنا کون ہے اور تو نے یہ کو انگھوٹی خاص طور پر بنوائی ہے کس کے لئے بنوائی ہے 

عدیل نے عمیر کو کہا : وہ لڑکی یاد ہے 

عمیر نے حیران ہو کر پوچھا : کونسا لڑکی ؟؟؟

عدیل نے مسکرا  کر کہا : وہی جو کل پہاڑی پر ملی تھی 

وہ آج یہاں بھی آئی تھی 

عمیر نے کہا : ہاں تو 

عدیل نے بے بسی سے کہا : مجھے نہیں پتا کیوں لیکن کل میں سارا دن اُس کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا 

عمیر نے ہنس کر کہا : تجھے وہ لڑکی اچھی لگتی ہے 

عدیل نے کہا : پتا نہیں لیکن اُس کو دیکھ کر جو محسوس ہوا ہے وہ آج سے پہلے کسی اور کو دیکھ کر نہیں ہوا 

عمیر نے کہا : وہ انگھوٹی اُس کیلئے بنوائی ہے ؟؟؟

عدیل نے مسکرا کر کہا : ہاں لیکن پتا نہیں کبھی دے بھی پاؤں گا یا نہیں میں تو اُس کو جانتا بھی نہیں ہوں 

عمیر نے ہنس کر کہا : تو جاننے میں کونسا صدیاں لگتی ہے 

جان پہچان ہو ہی جائے گی 




جاری ہے ...............

Post a Comment

Previous Post Next Post