Pehli Nazar ki Mohabbat | Urdu Short Novel | First Sight Love Urdu best Novel | Episode 2

 ناول : پہلی نظر کی محبت 

قسط 2 




اسلام و علیکم پھوپھو کیسی ہیں آپ (آشنا گھر آ کر اپنی پھوپھو کے گلے سے جا لگی ) 

نور بیگم نے آشنا کو پیار دیتے ہوئے کہا : میں بلکل ٹھیک ہوں 

تم کیسی ہو ؟؟؟

آشنا نے جلدی سے اٹھ کر کہا : میں بھی ٹھیک ہوں اچھا اب یہ بتائیں کہ کومل آپی کہاں ہے ؟؟؟

نور بیگم نے آشنا کو جواب دیتے ہوئے کہا : وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے 

ٹھیک ہے میں ان سے مل کر آتی ہوں آشنا یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی 

نور بیگم آغا صاحب اور حاجرہ بیگم کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی 

سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں آغا صاحب کے بڑے بھائی اسد صاحب بھی وہاں آگئے 


آغا صاحب والے دو بھائی اور ایک بہن نور بیگم ہیں 

نور بیگم کے شوہر خالد صاحب بینک میں مینیجر ہیں ان کے تین بچے ہیں 

سب سے بڑی بیٹی کومل جس کی وہ شادی کر رہی ہے 

اُس کے بعد ان کا بیٹا عادل جو کہ وکیل ہے 

عادل کے بعد مومل جو کہ آشنا کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے سیکنڈ ایئر میں ہیں 

نور بیگم کے بعد اسد صاحب ہیں جن کا اپنا کپڑوں کا کاروبار ہے 

ان کی اہلیہ زینب بیگم ہاؤس وائف ہیں 

ان کے دو بیٹے ایک وحید جو کہ ڈاکٹر ہے اور دوسرا عابد وہ ابھی پڑھ رہا ہے 



آشنا اوپر کومل کے کمرے میں جا رہی تھی کہ راستے میں اُس کو عابد (اُس کے تایا کا بیٹا ) مل گیا جو کہ پہلے سے وہاں موجود تھا 

آشنا نے عابد کو دیکھ کر کہا : اسلام علیکم عابد بھائی 

عابد نے آشنا کو دیکھ کر کہا : پہلے سے کافی خوبصورت ہوگئی ہو لیکن اپنے ان خوبصورت ہونٹوں سے مجھے بھائی تو مت بولو 

عابد ایک آوارہ لڑکا ہے جو ہر دوسری لڑکی کے ساتھ فلٹ کرتا ہے آشنا بھی ان میں سے ایک تھی 

آشنا نے غصہ سے کہا : میرا راستہ چھوڑیں ، مجھے جانا ہے 

عابد نے آشنا کے قریب آتے ہوئے بولا : اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی ابھی تو ملے ہیں بہت سی باتیں کرنی ہے 

آشنا کو سامنے سے عادل نظر آیا جو کہ اُس کی پھوپھو کا بیٹا تھا 

آشنا نے زور سے آواز دی : عادل بھائی 

عابد ایک دم پیچھے ہوگیا 

عادل وہاں پہنچا اور کہنے لگا : آشنا کیا بات ہے 

آشنا نے ہنس کر کہا : عادل بھائی آپ کو عابد بھائی یاد کر رہے تھے کہہ رہے تھے بہت ضروری بات کرنی ہے 

یہ کہہ کر آشنا وہاں سے چلی گئی 

عادل نے عابد سے مخاطب ہو کر کہا : بولو عابد کیا بات کرنی تھی 

عابد کو سمجھ نہیں آرہا تھا اب وہ کیا بولے ، کیا بہانا بنائے 

وہ عادل بھائی

..........

عادل نے عابد کو دیکھ کر کہا : اب اس سے آگے بھی بولو 

عادل بھائی وہ پھوپھو بول رہی ہیں کہ پھول والے کو بولیں کہ تھوڑے اور زیادہ پھول بھیج دے 

عابد کے ذہن میں جو بہانا آیا اُس نے وہ بنا دیا  

عادل نے حیران ہو کر کہا : اچھا ماما نے یہ کہا ہے عجیب ہے جب صبح میں نے ان سے پوچھا تھا کہ پھول کافی ہیں تو انہوں نے مجھے کہا تھا ہاں کافی ہے اور مجھے منع کر دیا تھا کہ اور پھول نہیں منگوانے 

چلو ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں

یہ کہہ کر عادل وہاں سے چلا گیا

عادل کے جاتے ہی عابد نے سکھ کا سانس لیا 

تمہیں تو میں نہیں چھوڑوں گا آشنا 

اب تم دیکھو میں کیا کرتا ہوں 

آخر کب تک بھاگو گی آنا تو تم نے میرے پاس ہی ہے 

عابد کو ہر لڑکی پسند آجاتی تھی لیکن عابد کی خاص نظر آشنا پر تھی وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا 

وہ آشنا سے محبت کرتا تھا لیکن عابد کی محبت آشنا کیلئے فقط تکلیف کے اور کچھ نہیں تھی 

عابد آشنا کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا وہ بہت خود غرض لڑکا ہے وہ اپنے غرض کیلئے کچھ بھی کر سکتا تھا 



آشنا کمرے میں داخل ہوئی جہاں کومل بیٹھی کسی سے فون پر باتیں کر رہی تھی 

آشنا نے کمرے میں آتے ہی سلام کیا 

کومل نے فون رکھا اور اُس کے سلام کا جواب دیا 

کومل نے آشنا کو دیکھ کر کہا : آگئی تم،  میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں 

آشنا نے کومل آپی کو تنگ کرتے ہوئے کہا : لیکن ابھی تو آپ کسی سے فون پر باتیں کر رہی تھی  ، کس سے باتیں کر رہی تھی 

کومل نے شرما کر کہا : وہ میں اپنی دوست سے بات کر رہی تھی 

آشنا نے ہنس کر کہا : رہنے دیں آپی یہ ڈرامے آپ کے بس کی بات نہیں ہے 

آپ کی آنکھیں تو کچھ اور ہی بول رہی ہیں 

اور اُس بات کا ثبوت آپ کی چہرے کی لالی دے رہی ہے 

میرے ہونے والے جیجو سے بات کی جا رہی تھی نہ ؟؟؟

کومل نے مسکرا کر کہا : اچھا بابا ٹھیک ہے ہاں میں ان سے ہی بات کر رہی تھی 

آشنا نے خوش ہو کر کہا : آپی میں آپ کی شادی سے بہت زیادہ خوش ہوں 

اور آپ کی شادی پر بہت مزہ آنے والا ہے 

ہم لوگ آپ کی شادی پر بہت مزہ کرنے والے ہیں 

آشنا نے ایک دم سوال پوچھا : آپی لیکن وہ کہاں سے جس کے ساتھ مل کر میں نے مزہ کرنا ہے  

کومل نے آشنا کو جواب دیتے ہوئے کہا : وہ بازار گئی ہے 

 تمہارے لیے سموسے لینے، تمہیں بہت پسند ہے نا 

 جب سے مومل کو پتہ چلا ہے کہ تم ہمارے گھر آ رہی ہوں بس اُس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے 

آشنا نے مسکرا کر کہا : اُسنے تو خوش ہونا ہی ہے 

 میں نے اُس کو بہت زیادہ مس کیا 

جب سے یونیورسٹی کی چھٹیاں ہوئیں ہیں ہم لوگ ملے ہی نہیں ہے 

 اسلام آباد ہوتی تو کبھی وہ میرے گھر آ جاتی کبھی میں آپ لوگوں کے گھر لیکن جب سے چھٹیاں ہوئیں ہیں تب سے ہم لوگ لاہور نانو کے پاس گئے ہوئے تھے

 کل ہی لاہور سے واپس آئے ہیں  

کومل نے آشنا کو کہا : مومل نے مجھے بتایا تھا 

آشنا نے کومل کو کہا : آپی میں تو ابھی تک شوپنگ ہی نہیں کی ہے 

مومل نے مجھے کہا تھا ایک ساتھ شوپنگ پر چلیں گے 

کومل نے سوچتے ہوئے کہا : تب ہی تو میں سوچوں کہ سب کہ شوپنگ ہوگئی ابھی بھی مومل میڈم کی شوپنگ نہیں ہوئی 

آشنا نے کومل کو دیکھ کر کہا : آپی آپ کو پتا ہے نہ وہ مجھ سے بنا پوچھے کچھ بھی نہیں لیتی 

کومل نے ہنس کر کہا : ہاں ہاں جانتی ہوں اِس لئے تو تم دونوں بیسٹ فرینڈز ہو 

اچھا یہ بتاؤں لاہور کا موسم کیسا تھا دیکھو یہاں اسلام آباد میں کتنا پیارا موسم ہو رہا ہے 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : اف آپی وہاں تو اتنی بارش ہو رہی تھی کے پوچھے ہی مت بہت ہی مشکل سے کل ہم لوگ وہاں سے آئے تھے 






آشنا اوپر چھت پر بیٹھی تھی کہ مومل نے پیچھے سے آکر آشنا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور خاموش ہوگئی 

آشنا نے بنا ہاتھوں کو ٹچ کیے کہا :  مومل ہاتھ ہٹا لو میں جانتی ہوں یہ تم ہو 

مومل نے چپ کر کے ہاتھ ہٹا لیا  اور آگے آکر بیٹھ گئی 

آشنا نے مومل سے پوچھا : اتنی دیر کہاں رہے گئی تھی 

مومل نے آشنا کو دیکھتے ہوئے کہا : یار تیرے لئے یہ سموسے لینے گئی تھی ، مل ہی نہیں رہے تھے 

بہت مشکل سے ایک دکان سے لے کر آئی ہوں 

آشنا نے اُس کے ہاتھ سے سموسے لیتے ہوئے کہا : چلو اب کھاتے ہیں ورنہ سموسے ٹھنڈے ہو جائے گے 

دونوں نے مل کر سموسے کھائے 

مومل نے آشنا سے پوچھا : شوپنگ پر کب جانا ہے ، پرسوں آپی کی ڈھولکی ہے 

آشنا نے تسلی دیتے ہوئے کہا : کل کا پورا ہے ہمارے پاس تو کل چلیں گے شوپنگ پر اور خوب مزہ کریں گے 





عدیل اپنے کمرے میں بیٹھا تھا ثمینہ بیگم اُس کے کمرے میں آئی 

ثمینہ بیگم نے عدیل کو مخاطب کر کے کہا : کھانا لگ گیا ہے آ جاؤ 

 عدیل جو کہ موبائل چلا رہا تھا کہنے لگا : ماما مجھے بھوک نہیں ہے 

ثمینہ بیگم اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی : کیا ہوا بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری ؟؟؟

عدیل نے جواب دیتے ہوئے کہا : ہاں ماما طبیعت صحیح ہے بس مجھے بھوک نہیں لگی ہے جب لگے گی تو کھا لوں گا 

ثمینہ بیگم نے عدیل کو دیکھ کر کہا : ٹھیک ہے

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 


ندا ثمینہ بیگم کے پاس آئی اور کہنے لگی : ماما ماموں کے گھر کب جانا ہے ؟؟

ثمینہ بیگم نے ندا کو دیکھ کر کہا : پرسوں چلیں گے 

ندا نے بے صبری سے پوچھا : ماما عدیل بھائی بھی چلیں گے 

ثمینہ بیگم نے منہ بنا کر کہا : پتا نہیں 

اِسے تو پاکستان ہی نہیں پسند تو شادی پر کہاں جائے گا 

ویسے بھی میں اُس کو منگنی پر لے کر گئی تھی دیکھا نہیں تھا ایک گھنٹے میں کتنا زیادہ بور ہوگیا تھا 

لیکن پھر بھی کل بات کر کے دیکھوں گی 



نور بیگم کے گھر میں بڑی رونق لگی ہوئی تھی

مہمانوں کی آمد جاری تھی 

سب نے مل کر کھانا کھایا 

کھانا کھانے کے بعد سب باتوں میں مصروف ہوگئے  

آشنا مومل کومل کے ساتھ اُس کے کمرے میں بیٹھی تھیں 


آشنا نے مومل کو مخاطب کر کے کہا : یار کوئی گانا ہی چلا دو 

پتا تو چلے ذرا شادی والا گھر ہے 

مومل نے اٹھ کر اسپیکر میں فل آواز میں گانے چلا دیے 

ان سب نے مل کر خوب انجوائے کیا 


آشنا پانی پینے کچن میں گئی تو اُس کے پیچھے عابد بھی وہاں آیا 

آشنا اُس کو اگنور کرتے ہوئے جا رہی تھی کہ عابد نے اُس کا دوپٹہ پیچھے سے پکڑا 

آشنا نے ایک دم پیچھے دیکھا اور اپنے دوپٹے کو زور سے پکڑا 

آشنا نے عابد کو غصہ سے کہا : یہ کیا بدتمیزی ہے عابد بھائی چھوڑیں  میرا دوپٹہ 

عابد نے اُس کا دوپٹہ چھوڑا اور مسکرایا کہنے لگا : کتنی دفعہ بولا ہے مجھے بھائی مت بولا کرو تمہیں سمجھ نہیں آتا کیا ؟؟؟

آشنا ایک دم چپ ہوگئی 

عابد اُس کے قریب آ کر کہنے لگا : تمہیں پتا ہے میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں اور تم سے ہی شادی کروں گا 

آشنا نے عابد کو دیکھ کر کہا : آپ نے اپنی شکل دیکھی ہےجو میں آپ سے شادی کروں گی ،  یہ آپ کی بھول ہے 

سمجھ آئی آپ کو بات 

عابد نے آشنا کے دونوں بازوں کو زور سے پکڑ کر کہا : شادی تو میں تم سے ہی کروں گا دیکھ لینا تم 

اتنے میں نور بیگم کچن میں آگئی 

نور بیگم کو دیکھتے ہی عابد آشنا سے دور ہوگیا 

نور بیگم نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : ارے آشنا تم یہاں اور مومل تمہیں ہورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہے 

آشنا گھبراتی ہوئی کچن سے باہر آگئی 

نور بیگم نے عابد کو دیکھ کر کہا : عابد بیٹا تمہیں کچھ چاہیئے تھا 

عابد نے جواب دیتے ہوئے کہا : نہیں پھوپھو بس پانی پینے آیا تھا 




جاری ہے ..........

Post a Comment

Previous Post Next Post