Pehli Nazar ki Mohabbat | Urdu Short Novel | First Sight Love Urdu best Novel | Episode 4

 ناول پہلی نظر کی محبت 

قسط 4 


آشنا اور مومل دونوں گھر آئیں سامنے کومل بیٹھی بریانی کھا رہی تھی 

ان دونوں کو گھر آتے ہوئے دیکھ کومل نے سوال کیا : ہوگئی شوپنگ تم دونوں کی ؟؟

مومل نے سانس بھر کر کہا : آپی شکر کریں شوپنگ لوگ ورنہ تو آج آشنا کو کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا 

کومل نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : کیوں آشنا تمہیں کچھ کیوں پسند نہیں آرہا تھا 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : آپی کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا لوں 

مومل نے ہنس کر کہا : آپی اُس کا موڈ جو آف تھا 

اور جب میڈم کا موڈ آف ہوتا ہے تب ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا 

کومل نے پریشان ہو کر پوچھا : کیوں موڈ آف تھا ، سب خیر ہے نہ ؟؟؟

مومل نے مسکرا کر کہا : آشنا کو ایک انگھوٹی پسند آگئی تھی لیکن وہ پہلے سے ہی سیل ہو چکی تھی 

دکاندار نے اِس کو وہ انگھوٹی نہیں دی تو اس لئے آشنا کا موڈ آف ہوگیا 

کومل نے ہنس کر کہا : یہ بھی کوئی بات ہوئی کیا اپنا موڈ آف کرنے کی ایک چھوٹی سی انگھوٹی کیلئے ، تم کچھ اور لے لیتی 

مومل نے کومل آپی کو مخاطب کر کے کہا : آپی اُس کو وہ پہلی نظر میں پسند آئی تھی اور آشنا شوپنگ پر جب بھی جاتی ہے اُس کو جو پہلی نظر میں چیز پسند آتی ہے 

آشنا وہی لیتی ہے تو میڈم کو اس لیے بہت دکھ ہے 

آشنا نے مومل کو منہ بنا کر کہا : بس کرو اب چلو اٹھ کر تیاریاں کرو 

مومل نے آشنا سے کہا : آشنا گانے بھی ابھی تک سلیکٹ نہیں کیے کے رات کو آپی کی ڈھولکی پر کونسے گانے پر ڈانس کرنا ہے 

آشنا نے اٹھ کر کہا : چلو پھر چلتے ہیں 




ثمینہ بیگم باہر لاؤنج میں بیٹھی  چاۓ پی رہی تھی 

عدیل کو دیکھ کر انہوں نے اُس کو اپنے پاس بلا لیا 

عدیل نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا : جی ماما 

ثمینہ بیگم نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا : آج سے ماموں کے گھر فنکشنز شروع ہیں تو تم چلو گے 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : ماما میں نے نہیں جانا 

ثمینہ بیگم نے عدیل کو سمجھاتے ہوئے کہا : بیٹا اچھا تھوڑی لگتا ہے تمہارے ماموں کی بیٹی کی شادی ہے اور تم ہی نہیں جا رہے ہو 

عدیل نے فورا سے کہا : ماما آپ تو ایسے کہے رہی ہیں جیسے میرے نا جانے سے ان کی شادی نہیں ہوگی یا پھر فنکشن رک جائے گا 

ثمینہ بیگم نے عدیل کو دیکھ کر کہا : ایسا تو مت کہو ، تم چلو گے تو تمہارے ماموں کو اچھا لگے گا 

عدیل نے غصہ سے کہا : ماما آپ جانتی ہیں کہ مجھے ان شادیوں کے فنکشنز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے 

آپ پہلے بھی زبردستی مجھے منگنی پر لے کر گئی تھی وہاں آپ نے دیکھا نہ میں کتنا زیادہ بور ہوگیا تھا 

پیلز اس دفعہ نہیں بولیں مجھے ، میں نے نہیں جانا

 ثمینہ بیگم نے کہا : تمہارے ماموں کا فون آیا تھا 

وہ بول رہے تھے کہ ہم لوگ وہاں ان کے ساتھ ہی رہیں جب تک شادی نا ہو جائے

عدیل نے ثمینہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے کہا : آپ بے فکر ہو کر جائیں 

میں خود مینیج کر لوں گا 




ندا اپنے کمرے سے آئی

 نیچے ثمینہ بیگم کو صوفے پر بیٹھا دیکھ ان سے مخاطب ہو کر بولی : ماما میں تیار ہوں 

ثمینہ بیگم نے کہا : بس تمہارے پاپا گاڑی نکالیں تو ہم چلتے ہیں 

ندا نے ثمینہ بیگم سے سوال کیا : ماما بھائی نہیں چل رہے کیا ؟؟؟

ثمینہ بیگم نے دکھی بھرے لہجے میں کہا : میں نے تو بہت کوشش کی لیکن وہ بہت ضدی ہے 

اپنی ضد سے پیچھے ہی نہیں ہٹتا 




نور بیگم کچن میں رات کے کھانے کی تیاریاں کر رہی تھی 

خالد صاحب نے نور بیگم کو آواز دی اور کہا : نور بیگم جلدی آو ثمینہ آگئی ہے 

نور بیگم جلدی سے کچن سے باہر آئی

 ان کا استقبال کیا 

سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے 

نور بیگم نے ثمینہ بیگم کو مخاطب کر کے کہا : باجی عدیل نہیں آیا 

ثمینہ بیگم نے جواب دیتے ہوئے کہا : اُس کے فائنل پیپر ہیں تو وہ اُس کی تیاری کریں گا 

میں نے کہا بھی تھا ، لیکن بچے سنتے کہاں ہے آج کل اپنے ماں باپ کی ...

خالد صاحب نے بڑی امید لگا کر کہا : آ جاتا تو اچھا تھا 





آشنا یار یہ کونسا وقت ہے سونے کا 

اٹھو دیکھو شام کے چار بج رہے ہیں 

مومل آشنا کو اٹھا رہی تھی 

آشنا جو کہ گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی 

مومل نے غصہ سے کہا : آشنا جلدی اٹھو پھر پارلر بھی جانا ہے 

آشنا نیند میں کہنے لگی : یار سونے دو نہ ویسے بھی پوری رات جاگنا ہے 

مومل نے پریشان ہو کر کہا : اٹھ جاؤ اب پریشاں مت کرو 

میں نے تمہیں اپنی پھوپھو سے بھی ملوانا ہے 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : اچھا پھر تھوڑی دیر میں اٹھتی ہوں 

مومل نے اُس کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا : تھوڑی دیر نہیں ابھی 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : اچھا بابا اٹھ گئی  

اب تم جاؤ میں فریش ہو کر آتی ہوں 


آشنا اور مومل دونوں باہر لاؤنچ میں آئیں 

جہاں سب لوگ ایک ساتھ بیٹھے تھے 

مومل نے ثمینہ بیگم کو مخاطب کر کے سلام کیا 

ثمینہ نے مومل کو پیار دیتے ہوئے کہا : وعلیکم السلام کیسی ہو ؟؟؟

مومل نے کہا : میں ٹھیک ہوں پھوپھو 

آشنا نے ثمینہ بیگم کو مخاطب کر کے کہا : السلام و علیکم آنٹی 

ثمینہ بیگم نے آشنا کو دیکھ کر کہا : وعلیکم السلام 

ثمینہ نے نور بیگم کو مخاطب کر کے کہا : بھابھی یہ آپ کے چھوٹے بھائی آغا بھائی کی بیٹی ہے نا ؟؟؟

نور بیگم نے کہا : جی باجی 

ثمینہ بیگم نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : آپ کا نام کیا ہے بیٹا 

آشنا نے مسکرا کر کہا : آشنا آغا خان 

ثمینہ نے مسکرا کر کہا : آپ منگنی پر نہیں آئی تھی ؟؟؟

آشنا نے ہنس کر کہا : جی آنٹی ، میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی 

میں نے تو بہت کوشش کی لیکن ماما پاپا نے میری ایک بھی نہیں سنی کہا تمہاری طبیعت خراب ہے تم نہیں جاؤں گی اور اس چکر میں ماما بھی نہیں آئی تھی اور میرے پاپا کی جان تو مجھ میں بستی ہے 

وہ جیسے تیسے کر کے منگنی پر آگئے لیکن مجال ہے جو وہ ایک گھنٹہ بھی یہاں روکے ہو 

جیسے ہی منگنی کی رسم ہوئی 

میرے پاپا گھر آگئے تھے 

مٹھائی تک نہیں کھا کر آئے تھے 


ثمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا :

والدین کی جان ان کی اولاد ہی ہوتی ہے ان کو اگر کچھ بھی ہو جائے وہ تو پریشان ہوگئے 

ثمینہ بیگم نے آشنا کو دیکھتے ہوئے کہا : جب میں نے آشنا کو دیکھا تھا تب وہ بہت زیادہ چھوٹی تھی 

لیکن اب تو ماشاءاللہ سے بہت بڑی اور بہت خوبصورت بھی ہوگئی ہے 

حاجرہ بیگم نے جواب دیتے ہوئے کہا : باجی بیٹیوں کو بڑے ہونے میں کہاں دیر لگتی ہے 

نور بیگم نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : بلکل ٹھیک کہا بھابھی ، ایسا لگتا ہے ابھی کل کی بات تھی کومل ننھی سے میرے ہاتھوں میں تھی اور آج دیکھیں اتنی بڑی ہوگئی ہے ماشاللہ سے آج ان کی ہاتھوں سے اُس کو رخصت کر دوں گی 

بیٹیاں سچ میں بہت پیاری ہوتی ہیں 

ان کے وجود سے ہی گھر گھر لگتا ہے 

ان کی ہنسی ، ان کی مستیاں ، ان کی باتیں گھر میں رونق لگاتی ہیں 

خود تو اداس ہوتی ہیں ، ہمیں بھی اداس کر کے چلی جاتی ہیں 

نور بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے 

حاجرہ بیگم نے نور بیگم کو تسلی دیتے ہوئے کہا : باجی بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : ماما کیوں بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں  

میں تو پرائی نہیں ہوں نہ میں تو آپ کی اور پاپا کی بیٹی ہوں 

حاجرہ بیگم نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : بیٹا لڑکیوں کو ایک نا ایک دن تو جانا ہی پڑتا ہے 

آشنا نے اٹھتے ہوئے کہا : میں تو اپنی ماما اور پاپا اور چھوڑ کر کہی نہیں جاؤں گی 

آشنا نے مومل کو مخاطب کر کے کہا : چلو اب پارلر نہیں جانا کیا 

مجھے تو بڑی جلدی نیند سے اٹھایا تھا 

مومل نے ہنس کر کہا : چلو بابا چلو 



کومل اپنے کمرے میں بیٹھی تھی 

ندا بھی اُس کے پاس ہی بیٹھی تھی 

آشنا ندا سے ملی 

آشنا بہت زیادہ فرینڈلی تھی تو اُس کی ندا کے ساتھ بہت اچھی دوستی ہوگئی 

آشنا نے کہا : اب چلو پارلر چلتے ہیں 

تیار ہونے میں بھی وقت لگے گا 

مومل ، کومل ، آشنا اور ندا چاروں لڑکیاں پارلر گئی 


آج کا فنکشن ان کے گھر میں ہی تھا 

پورا گھر پھولوں سے سجا ہوا تھا 

آج ڈھولکی کی رات ہے اور سب خوش ایسے ہو رہے تھے جیسے آج مہندی ہو 

نور بیگم نے خالد صاحب سے مخاطب ہو کر کہا : کیا ضرورت تھی لڑکیوں کو پارلر بھیجنے کی ، چھوٹا سا ڈھولکی کا فنکشن تھا اُس میں بھی ان کو پارلر سے تیار ہوتا تھا 

گھر میں تھوڑا سا خود تیار ہو جاتیں 

لیکن نہیں آپ کی ضد اور ان لڑکیوں کی ضد کے آگے میری کہاں چلتی ہے 

خالد صاحب نے ہنس کر کہا : اچھا بیگم اب غصہ تو نا کرو کچھ نہیں ہوتا لڑکیاں ہے کرنے دو اپنے شوق پورے 



گھر پورا پھولوں سے سجا ہوا تھا 

اس پر لائٹنینگ بھی کی ہوئی تھی 

گھر بہت خوبصورت لگ رہا تھا 

سب لڑکیاں پارلر سے تیار ہو کر گھر پہنچیں 



انشا نے اورنج رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی 

جس پر اُس نے سیدھی مانگ نکال کے دونوں سائیڈ بالوں کا ڈیزائن بنایا ہوا تھا

 گلے میں ایک لوکٹ اور کانوں میں بڑے بڑے جھمکے پہنے ہوئے تھے

 دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی ہوئی تھی 

ہلکا سا میک اپ کیا آنکھوں میں  کاجل ڈال کر اپنی آنکھوں کو مزید خوبصورت بنایا ہوا تھا 

ڈاک لال رنگ کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی 


مومل نے بھی مہرون رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی 

اُس کے بال کھلے ہوئے تھے 

اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی تھی 

ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا اور مہرون رنگ کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی 

سب بہت پیارے لگ رہے تھے 

آشنا اور مومل دونوں کومل کو لے کر آئیں 

کومل نے سبز رنگ کی لمبی اور بھاری فراک پہنی تھی 

ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا 

ہاتھوں میں گجرے پہنے ہوئے تھے 



آشنا اور مومل نے کومل کو جھولے میں بیٹھایا 

عورتیں ڈھولکی بجا رہی تھی 

سب نے مل کر گانے گایا خوب ڈانس کیا 

مومل اور آشنا نے مل کے محفل میں چار چاند لگا دئیے 

سب بہت انجوائے کر رہے تھے 

ثمینہ بیگم نے ندا کو بلایا اور کہا : ندا بیٹا جو تمہارے پاپا کومل کیلئے لاہور سے گفٹ لے کر آئے تھے وہ کہاں ہے 

ندا نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : ماما مجھے تو نہیں پتا 

ثمینہ نے چونک کر کہا : میں نے تمہیں دیا تھا نہ کے اپنے پاس رکھو 

ندا نے کہا : ماما کب ، مجھے تو نہیں دیا 

ثمینہ بیگم نے کہا : بیٹا جب ہم نکلے تھے تب میں نے ٹیبل پر ایک ڈبہ رکھا تھا اور کہا تھا ندا یہ ڈبہ اپنے بیگ میں رکھ لو میرے بیگ میں جگہ نہیں ہے 

ندا نے پریشان ہو کر کہا : ماما میں کچن میں موبائل پر ویڈیو دیکھ رہی تھی شاید اس لئے ہی مجھے آپ کی آواز سنائی نہیں دی 

میں نے ٹیبل سے نہیں اٹھایا تھا کچھ بھی 

ثمینہ بیگم نے ندا کو تسلی دیتے ہوئے کہا : کوئی بات نہیں 

پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے 

اگر تم نے ٹیبل سے نہیں اٹھایا تو وہ وہاں ہی پڑا ہوگا میں ابھی عدیل کو فون کرتی ہوں وہ دے جائے گا 

فاطمہ بیگم نے عدیل کو فون کیا 

عدیل اپنے کمرے میں بیٹھا تھا 

اُس کے ایک ہاتھ میں آشنا کا جھمکا ، دوسرے ہاتھ میں انگھوٹی تھی 

وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا 

عدیل کا فون ٹیبل پر رکھا بج رہا تھا 

عدیل نے فون اٹھایا 

جی ماما 

ثمینہ بیگم نے کہا : بیٹا ہم لوگ جلدی جلدی میں کومل کا گفٹ وہی نیچے ٹیبل پر بھول آئے ہیں تو تم تھوڑی دیر کیلئے آکر وہ گفٹ دے جاؤ گے 

عدیل نے چونک کر کہا : ماما میں کیسے آؤں ؟؟؟

ثمینہ بیگم نے کہا : بیٹا تمہارے ماموں کا گھر ہے پیلز آ کر دے جاؤ

عدیل نے منہ بنا کر کہا : ٹھیک ہے ماما لیکن میں باہر سے چلا جاؤں گا میں اندر نہیں آؤں گا 

ثمینہ بیگم نے کہا : ٹھیک ہے 


سب لوگ خوب انجوائے کر رہے تھے 

کھانا لگ چکا تھا سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے 

عدیل گھر کے باہر پہنچ گئے 

اُس نے ثمینہ بیگم کو میسج کیا 

ثمینہ بیگم باہر جانے کیلئے اٹھی ہی تھی کہ نور بیگم نے انہیں روک لیا 

ندا سامنے سے آرہی تھی 

ثمینہ بیگم نے ندا کو آواز دی 

ندا ثمینہ بیگم کے پاس آئی اور کہا : جی ماما 

ثمینہ بیگم نے فورا سے کہا : جاؤ بھائی نیچے آیا ہے

 عدیل سے گفٹ لے آؤ 

ندا نیچے جانے لگی تو آشنا نے اُس کو دیکھ لیا 

آشنا نے ندا سے سوال کیا : ندا تم کہاں جا رہی ہو 

ندا نے مسکرا کر کہا : نیچے کام سے جا رہی ہوں 

آشنا نے کہا : میں بھی چلتی ہوں 

ندا اور آشنا باہر گارڈن میں آئے 

آشنا نے چونک کر کہا : ندا تم یہاں کیوں آئی ہو 

ندا نے کہا : میرا بھائی باہر آیا ہوا ہے کچھ سامان گھر پر بھول گئے تھے تو وہ دینے آیا ہے 

تم یہاں ہی روکو میں اُس سے لے کر آتی ہوں 

آشنا نے کہا : ٹھیک ہے 

اتنے میں آشنا کے فون پر اُس کی دوست کی کال آگئی 

وہ فون پر بات کرنے میں مصروف ہوگئی 

ندا گیٹ پر گئی تو عدیل باہر ہی کھڑا تھا 

عدیل نے ندا کو گفٹ دیا اور جانے کیلئے مڑا ہی تھا کہ اُس کی نظر سامنے گارڈن میں کھڑی آشنا پر پڑی 

عدیل ایک دم حیران ہوگیا 

ندا جارہی تھی کہ عدیل نے اُس کو آواز دی 

ندا پیچھے مڑی اور کہا : جی بھائی 

عدیل کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے ندا سے آشنا کے بارے میں پوچھے لیکن عدیل نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا : وہ جو فون پر باتیں کر رہی وہ کون ہے ؟؟؟

ندا نے مسکرا کر کہا : بھائی وہ آشنا ہے 

عدیل نے فورا سے کہا : وہ تو مجھے بھی پتا ہے 

ندا نے حیران ہو کر کہا : کیا 

عدیل نے کہا : نہیں ، میرا مطلب تھا کہ وہ یہاں ماموں کے گھر مہمان بن کر آئی ہے 

ندا نے کہا : بھائی یہ اُس کی پھوپھو کا گھر ہے

ممانی کے بھائی کی بیٹی ہے 

عدیل نے ہنس کر کہا : کیا واقعی ؟؟؟؟

ندا نے کہا : ہاں بھائی بہت اچھی لڑکی ہے 

عدیل نے ندا کو کہا : بس ٹھیک ہے تم جاؤ 

عدیل ایک دم بہت زیادہ خوش ہوگیا اور کہنے لگا جس کو میں پورے شہر میں ڈھونڈتا وہ تو میری آنکھوں کے بلکل سامنے ہے 


عدیل نے جلدی سے عمیر کو فون کیا 

عمیر کو ساری بات بتائی 

عمیر نے ہنس کر کہا : دیکھا وہ تیرے کتنے پاس ہے مطلب مقدر بھی تم لوگوں کو ملوانا چاہتی ہے 

عدیل نے خوش ہو کر کہا : میں بہت زیادہ خوش ہوں 

مجھے سمجھ نہیں آرہا خوشی مجھے اُس کو دیکھ کر ہوئی ہے یا پھر وہ خاندان میں سے یہ جان کر ہوئی ہے 

لیکن ایک بات ہے کہ اب میں شادی میں کیسے جاؤں گا میں نے تو ماما تو صاف منع کیا تھا اور مامون والے کیا سوچیں گے 

عمیر نے کہا : تو بول دیا نہ مجھے گھر میں مزہ نہیں آرہا ہے 

اور کوئی کچھ بھی نہیں سوچے گا 

عدیل نے کہا : ٹھیک ہے میں ماما سے بات کرتا ہوں 

عدیل نے ثمینہ بیگم کو فون کیا اور کہا : ماما میرا دل نہیں لگ رہا ہے اکیلے گھر میں تو کیا میں شادی پر آجاؤں 

ثمینہ بیگم نے خوش ہو کر کہا : ہاں بیٹا آ جاؤ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہوئی 

تم آؤ گے مجھے بہت اچھا لگے گا 

عدیل نے اپنے سارے کپڑے رکھے اور شادی والے گھر پہنچ گیا 



سب اوپر تھے آشنا نیچے کچن میں پانی پینے آئی تو سامنے عابد کو دیکھ کر ڈر گئی 

عابد نے آشنا کو دیکھ کر کہا : آؤ میری جان ، میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا 

آشنا عابد کو دیکھ کر ایک دم پھر سے ڈر گئی اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے 

اُس کے ہاتھوں سے پانی کا گلاس بھی نیچے گر گیا 

عابد آشنا کے قریب آرہا تھا اور آشنا دور جا رہی تھی 

آشنا کی آنکھوں میں خوف صاف نظر آرہا تھا 

عابد نے آشنا کو کہا : آشنا میں تمہیں بہت چاہتا ہوں ، چپ کر کے میری ہو جاؤ ورنہ اور بھی بہت سے طریقے ہیں 

آشنا نے گھبراتے ہوئے کہا : پیلز مجھے چھوڑ دیں 

اتنے میں مومل وہاں آگئی 

آشنا بھاگ کر مومل کے گلے سے لگ گئی 

مومل نے عابد کو مخاطب کر کے کہا : عابد بھائی آپ کو شرم نہیں آتی 

عابد نے جواب دیتے ہوئے کہا : اِس میں شرم کی کیا بات ہے 

آشنا کو سمجھاؤ کہ میری محبت قبول کر لے ورنہ اچھا نہیں ہوگا 

یہ کہہ کر عابد وہاں سے چلا گیا 

آشنا مومل کے گلے سے لگ کر رونے لگی 

مومل نے اُسکے آنسو صاف کیے اور اُس کو اوپر لے گئی 

مومل نے آشنا کا موڈ بلکل ٹھیک کر دیا تھا 

آشنا تھوڑی دیر لیے ہی صحیح لیکن عابد والی بات بھول گئی 

وہ پھر سے شادی کو پھر پور انجوائے کرنے لگی 



عدیل فنکشن پر پہنچ چکا تھا 

سب نے عدیل ملا سب عدیل کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے 

لیکن عدیل کی آنکھیں جس کو ڈھونڈ رہی تھی وہ اُس کو ابھی تک کہیں نظر نہیں آئی تھی 

آشنا بھاگتی ہوئی کہے رہی تھی 

مومل پیلز مت لگانا 

مومل اُس کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور بول رہی تھی تم نے مجھے لگائی ہے میں کیوں نہ لگاؤ 

آشنا خود کو بچاتے ہوئے بھاگ رہی تھی اُس کا دھیان پیچھے مومل کی طرف تھا اور آگے سے عدیل آرہا تھا آشنا جا کر سیدھا عدیل سے ٹکرا گئی 

مومل نے دیکھا تو وہ رک گئی 

عدیل نے آشنا کو پکڑا لیا ورنہ وہ دونوں گر جاتے 

آشنا کے بال اُس کے چہرے پر تھے عدیل نے اُسکے بال چہرے سے ہٹائے 

عدیل مسکرا رہا تھا جبکہ آشنا کی آنکھیں نیچے تھی 

آشنا نے آنکھ اٹھا کر عدیل کو دیکھا اور کہا : آپ

.................


جاری ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post