Pehli Nazar ki Mohabbat | Urdu Short Novel | First Sight Love Urdu best Novel | Episode 5

 ناول پہلی نظر کی محبت 

قسط 5 


مومل ان دونوں کے پاس آئی 

مومل نے عدیل کو دیکھ کر کہا : اسلام و علیکم عدیل بھائی 

عدیل جو کہ آشنا کو دیکھنے میں مصروف تھا ایک دم چونک اُس نے آشنا کو چھوڑا اور مومل کو دیکھ کر کہا : وعلیکم السلام 

آشنا حیرانی سے عدیل کو دیکھ رہی تھی اور آہستہ سے بولا : جھمکا چور کہی کا 

عدیل نے آشنا کی یہ بات سن لی 

اور مسکرا دیا 

مومل نے آشنا کو مخاطب کر کے کہا : آشنا تم عدیل بھائی کو جانتی ہو 

آشنا نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا : نہیں 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 

سب لوگ بیٹھے تھے 

عدیل کی نگاہیں آشنا پر ہی تھی جو کہ جھولے میں بیٹھی مومل کے ساتھ باتیں کر رہی تھی 

کومل نے اپنے ہاتھوں میں مہندی لگائی 

آشنا اور مومل نے بھی اپنے اپنے ہاتھوں میں مہندی لگوائیں 

آشنا کچن میں پانی پینے گئی لیکن اُس کے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی تھی اتنے میں عدیل وہاں سے گزر رہا تھا

مومل نے آشنا اور عدیل کی دوستی کروا دی تھی 

وہ ایک دوسرے سے باتیں بھی کرنے کے گئے 

آشنا نے عدیل کو دیکھ کر اُس کو آواز دی 

عدیل آشنا کے پاس آ کر بولا : جی بولیں آشنا کیا بات ہے ؟؟؟

آشنا نے فورا سے کہا : مجھے پانی پینا ہے 

عدیل نے ہنس کر کہا : پانی ہی تو پینا ہے تو پی لیں اُس میں اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے

آشنا نے منہ بنا کر کہا : زیادہ سمارٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے 

آشنا نے اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کو آگے کر کے دیکھایا اور کہا : یہ دیکھیں مہندی لگی ہوئی ہے میرے ہاتھوں میں تو کیسے پانی پیوں

عدیل نے مسکرا کر کہا : اچھا تو میں آپ کو پانی دیتا ہوں 

عدیل نے آشنا کو پانی پلایا 



رات کے 2 بج گئے تھے سب نے مل کر خوب مزہ کیا تھا 

اب سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے 

آشنا کمرے میں مومل کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی 

آشنا کو نیند ہی نہیں آرہی تھی جبکہ مومل گہری نیند میں سو چکی تھی 


آشنا کو نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ اوپر چھت پر چلی گئی جہاں عدیل پہلے سے ہی کھڑا تھا 

آشنا نے عدیل کو دیکھ کر کہا : عدیل 

عدیل نے ایک دم پیچھے دیکھا 

سامنے آشنا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا 

عدیل نے آشنا کو کہا : جی 

آشنا نے حیران ہو کر کہا : آپ یہاں 

عدیل نے کہا : مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو میں اوپر چھت پر آگیا 

آشنا نے مسکرا کر کہا : اچھا ،  مجھے بھی نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا اوپر چھت پر ہی چلی جاؤں 

یہ کہہ کر آشنا جا کر جھولے میں بیٹھ گئی 

عدیل آشنا کے پاس جھولے کے ساتھ کھڑا ہوا تھا 

عدیل نے آشنا کو کہا : آپ کو ایک بات بتاؤں 

آشنا نے ہنس کر کہا : ہاں جی 

عدیل نے پیار بھرے لہجے میں کہا : آج پہلی بار مجھے میرا اچھا لگا 

آشنا نے حیران ہو کر کہا : اچھا اور وہ کیوں 

عدیل نے دل میں کہا : آپ نے جو لیا ہے 

آشنا نے چاند کو دیکھ کر کہا : چاند خوبصورت ہوتا ہے 

عدیل نے آہستہ سے کہا : آپ سے کم 

آشنا ایک دم عدیل کو دیکھنے لگی اور کہا : آپ نے کچھ کہا 

عدیل نے مسکرا کر کہا : نہیں 

عدیل نے آشنا کو کہا : کیا آپ کو کسی سے محبت ہوئی ہے 

آشنا نے ہنس کر کہا : محبت اور مجھے نہیں 

عدیل نے چونک کر کہا : کیوں آپ کو محبت نہیں ہوسکتی کیا 

آشنا نے ہنس کر کہا : ہوسکتی ہے لیکن ابھی تک ہوئی نہیں ہے 

آشنا نے فورا سے سوال کیا : کیا آپ کو محبت ہوئی ہے 

عدیل نے سوچتے ہوئے کہا : پتا نہیں 

آشنا نے ہنس کر کہا : آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ آپ کو کسی سے محبت ہوئی بھی ہے یا نہیں 

عدیل نے مسکرا کر کہا : محبت شروع میں کہاں پتا چلتی ہے یہ تو وہ جذبہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور گہرا ہوتا جاتا ہے 

آشنا نے مسکرا کر کہا : بڑی اچھی باتیں کر لیتے ہیں 

عدیل نے ہنس پڑا 

آشنا نے کہا : آپ کو پتا ہے مجھے محبت پر یقین ہے لیکن پہلی نظر کی محبت پر یقین نہیں ہے 

عدیل ایک دم چونک گیا اور کہنے لگا : کیوں 

آشنا نے مسکرا کر کہا : کیونکہ پہلی نظر میں آپ کو صرف خوبصورتی ہی اٹریکٹ کر سکتی ہے 

کچھ انسان پسند ہوتے ہیں اور پھر لوگ ان کو محبت کا نام دے دیتے ہیں 

پہلی نظر میں کوئی کسی سے محبت نہیں کر سکتا صرف پسند کر سکتا ہے 

عدیل نے کہا : پسند آہستہ آہستہ محبت میں بھی تو تبدیل ہو سکتی ہے 

آشنا نے ہنس کر کہا : ہاں ہوسکتی ہے لیکن مجھے تو بس پہلی نظر میں چیزیں ہی پسند آتی ہیں 

اور وہ چیز مجھے پہلی نظر میں پسند آ جائے پھر مجھے وہ ہی چاہیے ہوتی ہے 

عدیل نے مسکرا کر کہا : اچھا 

عدیل نے آشنا کو کہا : آپ نے مجھے کچھ کہا تھا 

آشنا نے چونک کر کہا : کب 

عدیل نے کہا : ڈھولکی کے فنکشن پر جب آپ مجھ سے ٹکرائی تھی 

آشنا نے نظر انداز کرتے ہوئے کہا : مجھے تو نہیں یاد 

عدیل نے مسکرا کر کہا : جھمکا چور 

آشنا نے معذرت کرتے ہوئے کہا : سوری وہ 

....

عدیل نے آشنا کی بات کو کاٹا اور کہا : سوری بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے 

یہ لیں اپنا جھمکا 

عدیل نے آشنا کے ہاتھ میں جھمکا رکھ کر کہا 

آشنا ایک دم خوش ہوگئی 

عدیل بھی آشنا کے ساتھ جھولے میں بیٹھ گیا 

دونوں نے بہت ساری باتیں کی 

آشنا نے اٹھ کر کہا : چلیں اب میں چلتی ہوں

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 



آج صبح سب مہندی کے فنکشن میں مصروف تھے 

مومل نے آشنا کو دیکھ کر کہا : کیا بات ہے میرے کزن کے ساتھ کچھ زیادہ دوستی ہوگئی ہے 

آشنا نے اپنے کھلے بالوں کو باندھتے ہوئے کہا : کونسے کزن کے ساتھ ؟؟؟

مومل نے فورا سے کہا : عدیل بھائی کے ساتھ 

آشنا نے ایک دم کہا : ہاں تو تم نے ہی تو دوستی کروائی ہے نہ اور ویسے بھی صرف دوستی ہی ہے 

مومل نے آشنا کو تنگ کرتے ہوئے کہا : مجھے تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے 

آشنا نے مومل کی طرف دیکھ کر کہا : اچھا بتاؤ پھر کیا لگ رہا ہے 

مومل نے ہنس کر کہا : مجھ سے مت چھپا اگر میرا کزن پسند آہی گیا ہے تو مجھے بتا دے 

آشنا نے مومل کی طرف غصہ سے دیکھا اور کہا : میڈم یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ آپ کا کزن مجھے پسند ہے 

میں اُس سے ویسے ہی بات کرتی ہوں جیسے سب سے کرتی ہوں 

مومل نے آشنا کو پھر ایک بار تنگ کرتے ہوئے کہا : زیادہ بنو نہیں 

آشنا بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی 



شام کے 5 بج رہے تھے سب مہندی کیلئے تیار ہو رہے تھے 

آشنا نے سرمئی اور پنک رنگ کا بھاری لہنگا پہنا ہوا تھا 

بال کھلے ہوئے تھے بالوں میں ٹیکا لگایا ہوا تھا

بڑے بڑے جھمکے کانوں میں پہنے ہوئے تھے 

ایک ہاتھ میں چوڑیاں اور دوسرے ہاتھ میں گجرے پہنے ہوئے تھے 

آج وہ تو بہت خوبصورت لگ رہی تھی 


مومل نے بھی نیلے رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا 

ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا 

اُس نے بھی کانوں میں جھمکے پہنے ہوئے تھے 

دونوں ہاتھوں میں گجرے تھے 


نور بیگم نے آشنا اور مومل کو آواز دی جو کہ اوپر اپنی تصویریں لے رہی تھی 

نور بیگم نے کہا : جلدی آجاؤ بس آگئی ہے 

مومل نے فورا سے جواب دیا : جی ماما آ رہے ہیں 

آج کا فنکشن ہال میں تھے سب لوگ ہال میں پہنچے 

ہال بہت زیادہ خوبصورت سجا ہوا تھا 

مومل نے عدیل کو دیکھا جو کہ آشنا کو ہی دیکھ رہے تھے 

مومل نے عدیل کو مخاطب کر کے کہا : عدیل بھائی آشنا کے علاؤہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں یہاں کسی اور کو ہی دیکھ لیں 

عدیل نے ایک دم چونک کر پیچھے دیکھا تو مومل پیچھے کھڑی ہوئی تھی 

عدیل نے مسکرا کر کہا : مومل تم 

مومل نے ہنس کر کہا : تو پھر اور کون آشنا ؟؟؟

عدیل نے نظریں جھکا کر کہا : ارے نہیں ، وہ تو بس .....

مومل نے عدیل کو تنگ کرتے ہوئے کہا : وہ تو بس کیا ، کب سے دیکھ رہی ہوں آپ میری کزن کو دیکھے ہی جا رہے ہیں ، کیا بات ہے 

عدیل نے ہنس کر کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے 

مومل نے مسکرا کر کہا : مجھے بہت کچھ لگ رہا ہے 

مجھے تو لگ رہا ہے دال پوری کالی ہے 

عدیل ایک دم خاموش ہوگیا 

مومل نے مسکرا کر کہا : چلیں کوئی بات نہیں 

دیکھیں آپ آشنا کو میں چلتی ہوئی

مومل ہنستی ہوئی چلی گئی 



آشنا اپنی تصویریں لے رہی تھی کہ عدیل آشنا کے پاس آیا 

عدیل نے آشنا کو دیکھتے ہوئے کہا : آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں   

آشنا نے مسکرا کر کہا : وہ تو مجھے پتا ہے میں کتنی پیاری ہوں 

ویسے آج آپ بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں 

عدیل نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا ہاتھ میں بلیک رنگ کی گھڑی پہنی ہوئی تھی 

عدیل نے مسکرا کر کہا : شکریہ 


کومل کو آشنا اور مومل اسٹیج پر لے کر آئیں 

کومل نے پیلے اور سبز رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا 

سب نے کومل کی رسم کی 

اور پھر مومل اور آشنا نے مل کر خوب ڈانس کیا 

عدیل آشنا کو دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا 

پورے فنکشن میں عدیل آشنا کو ہی دیکھ رہا تھا 

گانے زور زور سے بج رہے تھے 

فنکشن چل رہا تھا 

آشنا کے پاس ایک چھوٹا سا بچہ آیا 

آشنا کو ایک خط دے کر چلا گیا 

آشنا نے وہ خط کھولا تو اُس میں لکھا ہوا تھا آشنا اوپر آؤ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے 

آشنا نے خط پڑھا اور حیران ہوگئی ۔کہ کس نے اُس کو یہ خط لکھا ہوگا ۔اور کیوں لکھا ہوگا 

خط پر بھیجنے والے کا نام بھی نہیں لکھا ہوا تھا 


آشنا سوچ رہی تھی کہ اوپر جاؤں یا نہیں پھر اُس نے سوچا کہ مومل کو بتاتی ہوں لیکن مومل فنکشن میں اس قدر مصروف تھی کہ آشنا کی بات نہیں سن سکی 


آشنا آخر کار اوپر چلی گئی 

سب لوگ نیچے ہال میں تھے اوپر ٹیرس بلکل خالی تھا 

آشنا اوپر ٹیرس پر آئی تو وہاں کوئی نہیں تھا 

آشنا بول رہی تھی لگتا ہے کسی نے میرے ساتھ مذاق کیا ہوگا 

وہ جیسے ہی جانے کیلئے مڑی تو پیچھے سے کسی نے اُس کا ہاتھ زور سے پکڑا 

وہ ایک دم ڈر گئی 

اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں عابد کھڑا تھا 

آشنا نے اپنا ہاتھ عابد کے ہاتھ کی گرفت سے آزاد کیا اور کہا : یہ کیا مذاق ہے ؟؟؟

عابد نے بے بسی سے کہا : تمہیں میری محبت مذاق لگ رہی ہے 

آشنا نے عابد کو کہا : آپ کو میں نے کتنی دفعہ بولا ہے میں آپ سے محبت نہیں کرتی 

عابد نے آشنا کو بازوں سے پکڑتے ہوئے کہا : کوئی بات نہیں ، میں تو کرتا ہوں 

آشنا نے غصہ سے کہا : بہت ہی گھٹیا ہو تم 

عابد نے آشنا کے بازوں کو زور سے پکڑتے ہوئے کہا : گھٹیا نہیں ، ضدی ہوں 

تم پسند ہو مجھے اور اب میں تمہیں حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں 

آشنا نے اُس کو دھکا دیتے ہوئے کہا : آپ کے یہ خواب خواب ہی رہے جائے گے 

عابد نے ہنس کر کہا : مجھے اپنے خوابوں کو تکمیل تک لے جانا آتا ہے اِسی لئے تو آج تمہیں یہاں بلایا ہے 

یہ کہہ کر وہ اُس کے قریب آیا 

آشنا کی کمر سے پکڑ کر عابد نے اُس کو اپنے قریب کیا 

آشنا نے زور سے چلاتے ہوئے کہا : یہ کیا بدتمیزی ہے 

چھوڑیں مجھے 

آشنا نے خود کو عابد کی گرفت سے چھڑوانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی 

عابد نے اُسکے گالوں سے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا : چھوڑنے کیلئے تھوڑی پکڑا ہے ، بس آج کی رات اور تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری ....

آشنا نے زور زور سے چلانا شروع کیا 

وہ بہت ڈری ہوئی تھی 

عابد نے ہنس کر کہا : چلاؤ جتنا چلا سکتی ہو 

لیکن تمہاری آواز سننے کیلئے یہاں کوئی نہیں ہے 

نیچے بہت تیز میوزک چل رہا ہے 

آشنا نے زور سے عابد کو دھکا دیا 

آشنا وہاں سے بھاگنے لگی 

آشنا ٹیرس سے نیچے جا ہی رہی تھی کہ عابد نے آشنا کے دوپٹہ کو کھینچا 

آشنا کا دوپٹہ نیچے زمین پر گر گیا 

آشنا بہت ڈر لگی ، اُس کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ آنسو بھی آرہے تھے 

عابد نے آشنا کے بازوں کو پکڑتے ہوئے کہا : آج تو کہیں نہیں جا سکتی 

آشنا روتے ہوئے کہنے لگی : مجھے چھوڑ دیں 

عابد آشنا کے قریب جانے کی لگا تھا کہ وہاں ٹیرس پر عدیل آگیا 

عدیل نے آشنا کو عابد کی گرفت سے آزاد کیا اور عابد کو زور سے مارنے لگا اور کہنے لگا : تمہاری ہمت کیسے ہوئی آشنا کو ہاتھ لگانے کی 

عدیل عابد کو مار رہا تھا 

آشنا دوڑ کر عدیل کے پاس آئی اور اُس کے گلے سے لگ گئی 

وہ بہت ڈری ہوئی تھی ، بہت زیادہ رو رہی تھی


عابد نے عدیل کو سمجھاتے ہوئے کہا : دیکھو یہ میری اور آشنا کی آپس کی بات ہے تم ہم دونوں کے بیج میں مت آؤ 

عدیل نے غصہ سے کہا : اب تو میں آگیا ہوں بیج میں ، آشنا نے عدیل کو بہت زور سے پکڑا ہوا تھا 

عابد نے کہا : اچھا نہیں ہوگا 

عدیل نے غصہ سے کہا : اگر اپنی جان پیاری ہے تو چلے جاؤ یہاں سے ورنہ تمہارا وہ حال کروں گا تم خود کو پہچان نہیں پاؤ گے 

عابد کے منہ سے خون بہہ رہا تھا 

عدیل نے اُس کو اتنا مارا تھا 

عابد جا رہا تھا کہ عدیل نے کہا : ایک اور بات اب اگر تم نے آشنا کو دیکھا بھی نہ تو آنکھیں نکال دوں گا 

عابد نے ہنس کر کہا : آشنا صرف اور صرف میری ہے 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا 

آشنا نے عدیل کی شرٹ کو زور سے پکڑ کر گلے لگایا ہوا تھا 

وہ رو رہی تھی ، بہت ڈری ہوئی تھی 

عدیل نے آشنا کو دیکھ : وہ چلا گیا ہے 

آشنا نے آنکھیں کھولیں سامنے عدیل کھڑا تھا 

عدیل نے زمین سے آشنا کا دوپٹہ اٹھا کر آشنا کے گلے میں پہنایا 

آشنا اب تک ڈری ہوئی تھی ، اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے 

عدیل نے آشنا کو تسلی دیتے ہوئے کہا : آشنا رونا بند کرو سب ٹھیک ہو گیا ہے 


آشنا اُس کو بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی 


نیچھے سب کھانا کھا رہے تھے 

مومل نے آشنا کو دیکھ کر کہا : کہاں تھی تم 

میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی اور کومل آپی بھی تمہارا پوچھ رہی ہیں 

آشنا بنا اُس کو جواب دیے حاجرہ بیگم جو کہ ٹیبل پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی وہاں گئی 

مومل اُس کے پیچھے جا رہی تھی کہ کومل نے اُس کو آواز دی 

آشنا نے حاجرہ بیگم کو مخاطب کر کے کہا : ماما مجھے گھر جانا ہے

حاجرہ بیگم کے ساتھ ثمینہ بیگم بھی بیٹھی ہوئی تھی 

حاجرہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا : کیا ہوا بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے 

آشنا نے بہت مشکل سے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا : ماما مجھے بس گھر جانا ہے آپ پیلز پاپا کو بولیں کہ مجھے گھر چھوڑ کر آئیں 


حاجرہ بیگم نے آشنا کو دیکھ کر کہا : تمہارے پاپا تو عادل کے ساتھ باہر کسی کام سے گئے ہیں 

تم تھوڑی دیر روکو ، وہ آتے ہوگے تو ہم سب واپس چلتے ہیں 

آشنا نے کہا : ماما میں ابھی گھر جانا چاہتی ہوں آپ مجھے گاڑی کی چابی دیں میں خود چلی جاؤں گی 

حاجرہ بیگم نے کہا : بیٹا اتنی رات کو میں تمہیں اکیلے جانے نہیں دوں گی 

اتنے میں وہاں عدیل آگیا 

ثمینہ بیگم نے عدیل کو مخاطب کر کے کہا : عدیل آشنا کو گھر لے جاؤ اُس کی طبیعت خراب ہے 

حاجرہ بیگم نے آشنا کو کہا : یہ ٹھیک ہے تم عدیل کے ساتھ چلی جاؤ 

آشنا عدیل کے ساتھ گئی 

عدیل نے آشنا کو اپنی گاڑی میں بیٹھایا 



نور بیگم آشنا کو ڈھونڈتی ہوئی حاجرہ بیگم کے پاس آئی اور کہنے لگی : بھابھی آشنا کہاں ہے 

مومل اس کو کب سے ڈھونڈ رہی ہے 

حاجرہ بیگم نے جواباً کہا : اُس کی طبیعت خراب ہو رہی تھی تو وہ گھر چلی گئی 

نور بیگم نے چونک کر کہا : گھر چلی گئی لیکن کس کے ساتھ 

ثمینہ بیگم نے کہا : عدیل کے ساتھ 

نور بیگم نے منہ بنا کر کہا : ٹھیک ہے میں ذرا مومل کو بتا کر آؤں 



مومل نور بیگم کے پاس آئی 

مومل نے پریشان ہو کر کہا : ماما آپ نے آشنا کو کہیں دیکھا ہے میں کب سے اُس کو ڈھونڈ رہی ہوں 

نور بیگم نے غصہ سے کہا : ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ یہاں نہیں ہے 

مومل نے چونک کر کہا : کیا مطلب ، پھر وہ کہاں ہے 

نور بیگم نے منہ بنا کر کہا : اُس کی طبیعت خراب ہو رہی تھی تو وہ عدیل کے ساتھ گھر واپس چلی گئی 

مومل نے پریشان ہو کر کہا : کیا ہوا اُس کو اچانک کیسے طبیعت خراب ہوگئی وہ ٹھیک تو ہے نہ 

نور بیگم نے کہا : چپ کرو تم 

مجھے تو سمجھ نہیں آرہا ہے جوان بیٹی کو اتنی رات کو بھابھی نے عدیل کے ساتھ بھیج کیوں دیا 

مومل نے منہ بنا کر کہا : ماما آپ یہ سب کیا بول رہی ہیں 

نور بیگم نے کہا : آج کل زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے 

کسی پر یقین نہیں کرنا چاہیے 

مومل نے نور بیگم کو دیکھ کر کہا : ماما نہ تو عدیل بھائی ایسے ہیں اور نہ آشنا تو آپ بنا وجہ کچھ بھی نا سوچیں 


نور بیگم نے کہا : تم مجھے مت بتاؤ مجھے کیا سوچنا ہے کیا نہیں 

مومل نے منہ بنا کر کہا : ماما بس کریں 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 



جاری ہے .........

Post a Comment

Previous Post Next Post