Pehli Nazar ki Mohabbat | Urdu Short Novel | First Sight Love Urdu best Novel | Episode 1

 ناول پہلی نظر کی محبت 

قسط 1 



آشنا میری بات سنو بیٹا تم نے شادی پر زیادہ ہنگامہ نہیں کرنا ہے  

(حاجرہ بیگم اپنی بیٹی آشنا کو کہہ رہی تھی) 

آشنا جو کے کانوں میں ہینڈ فری لگا کے بیٹھی ہوئی تھی 

حاجرہ بیگم کی بات سن کر اِن سنی کر دی 

حاجرہ بیگم نے اُس کو ایک دفعہ پھر مخاطب کر کے کہا :  آشنا تم میری بات سن رہی ہو 

آشنا نے اپنے کانوں سے ہینڈ فری نکالتے ہوئے کہا :  ماما آپ کتنا پریشان ہوتی ہیں 

اور اک بات تو بتائیں وہ شادی ہی کیا جس میں ہنگامہ نہ ہو 

 آشنا نے اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا 

حاجرہ بیگم نے اُس کو سمجھاتے ہوئے کہا : بیٹا وہ تمہاری پھوپھو کا گھر ہے 

 وہاں بہت سے مہمان آئے ہوگئے 

 اور تم اتنی بڑی ہو کر مستیاں کرتی ہوئی اچھی لگوں گی کیا ؟؟؟


آشنا نے منہ بنا کے کہا :  ماما تو ہم بھی مہمان ہی جا رہے ہیں

 اور ویسے بھی میری کزن کی شادی ہے اور میں مستی بھی نہ کرو یہ تو اچھی بات نہیں ہے نہ 

حاضر بیگم نے غصے سے کہا :  کرو جو تمہاری مرضی ہے ویسے بھی تمہارے پاپا نے تمہیں کچھ زیادہ ہی سر پہ چڑھا رکھا ہے 

آغا صاحب جو کہ آگے گاڑی چلا رہے تھے ماں بیٹی کی گفتگو سن کر مسکرا پڑے 

آشنا نے حاجرہ بیگم کو گلے لگا کر کہا : اچھا نہ ماما اب ناراض مت ہو میں خیال رکھوں گی 


آشنا حاجرہ بیگم اور آغا صاحب کی اکلوتی بیٹی ہے 

آشنا خوش مزاج ، اپنی بات منوانے والی لڑکی تھی اُس کو اپنی زندگی بھرپور طریقہ سے جینے آتی تھی 

دوسرے لوگ کیا سمجھتے ہیں کیا بولتے ہیں اُس کو اِس بات سے بالکل بھی فرق نہیں پڑتا تھا  

آغا صاحب اور حاجرہ بیگم اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے 

آغا صاحب کے لاڈ پیار نے ہی اُس کو بہت زیادہ ضدی بنا دیا تھا 



آشنا چپس کھاتے ہوئے آغا صاحب سے مخاطب ہو کے بولی : پاپا اور کتنی دور ہے پھوپھو کا گھر ؟؟؟


آغا صاحب جو کے گاڑی چلا رہے تھے

آشنا کے سوال پوچھنے پر اُس کو جواب دیتے ہوئے کہا : بیٹا بس تھوڑی ہی دور ہے ، پہنچنے والے ہیں 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : پاپا مجھے بھوک لگ رہی ہے اور بہت زیادہ بھوک لگ رہی ہے 

حاجرہ بیگم نے آشنا سے مخاطب ہو کر کہا : صبر کر جاؤ ، بس پہنچنے ہی والے ہیں تو وہاں جا کر کھا لینا 

آشنا نے منہ بنا کر کہا : ماما مجھے بہت بھوک لگی ہے 

حاجرہ بیگم نے اُسکے بیگ سے چپس نکالتے ہوئے کہا : یہ جو اتنی ساری تم چپس لے کر آئی ہوں یہ کھاؤ 

آشنا نے منع کرتے ہوئے کہا : ماما مجھے کھانا کھانا ہے 

اور ویسے بھی دیکھے نہ اسلام آباد کا موسم کتنا اچھا ہو رہا ہے 

پاپا آپ چلیں کسی ہوٹل پر وہاں جا کر کھانا کھاتے ہیں 

آغا صاحب نے آشنا کی بات مانتے ہوئے کہا : ٹھیک ہے میری جان جیسا تم کہو 

آشنا خوش ہو کر بولی : 

Thank you papa and love you so much 


ماما کو بولا بھی تھا کہ مجھے اسلام آباد نہیں آنا لیکن پھر بھی انہوں نے ضد کی کہ اِس بار میں چھٹیوں میں اسلام آباد آؤں 

 عدیل نے اپنے سامنے بیٹھے دوست عمیر کو دیکھ کر بولا

عمیر نے کافی پیتے ہوئے کہا : ویسے بھائی مجھے تیری سمجھ نہیں آتی تجھے اسلام آباد میں مزہ نہیں آتا

کتنا خوبصورت شہر ہے ہر طرف خوبصورتی ہی خوبصورتی ہے  

 

عدیل نے منہ بنا کر کہا : مجھے تو یہاں کچھ بھی خوبصورت نہیں لگ رہا ہے 

عمیر نے تنگ کرتے ہوئے کہا : تجھے یہاں کی لڑکیاں بھی خوبصورت نہیں لگ رہی کیا ؟؟؟

عدیل نے کافی پیتے ہوئے کہا : نہیں 

عمیر نے ہنس کر کہا : تجھے پتا ہے پورے پاکستان میں اسلام آباد کی لڑکیوں کا حسن مشہور ہے کہ یہاں بہت حسین لڑکیاں پائی جاتی ہیں تو تجھے اب تک ایک بھی پسند نہیں آئی ایسا تو نہیں ہے کہ امریکا میں ہی کسی گوری کو دل دے دیا ہو 

عدیل نے منہ بنا کر کہا :  بکواس بند کر میں امریکا پڑھنے گیا ہوں نہ کہ کسی کو دل دینے اور ویسے بھی اب تک مجھے وہ لڑکی نہیں ملی ہے جس کو میں اپنا دل دے سکوں 

عمیر نے مسکرا کر کہا : اچھا تو پھر تجھے کیسی لڑکی چاہیے ؟؟؟

عدیل نے ہنس کر کہا : جس لڑکی کو دیکھ کر پھر کسی اور کو دیکھنے کی چاہ ہی نہ رہے 

جس کو دیکھ کر مجھے آس پاس کی ساری چیزیں ہی خوبصورت لگے 

عمیر نے مسکرا کر کہا : اور تجھے ایسی لڑکی کہاں ملے گی پاکستان میں یا پھر آمریکا میں ؟؟؟

عدیل نے عمیر کی طرف دیکھ کر کہا : اب مجھے کیا پتا کہاں ملے گی لیکن مجھے اتنا ضرور پتا ہے کہ پاکستان میں نہیں ملے گی 

عمیر نے غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا : اور وہ کیوں ؟؟؟

عدیل نے ہنس کر کہا : کیونکہ یہاں ایسی لڑکیاں ہی نہیں ہے جو میرے دل کو بھا جائے 

عمیر نے عدیل کو کہا : ہو سکتا ہے تجھے آج ہی وہ لڑکی مل جائے 

عدیل نے مسکرا کر کہا : ہاں ہاں بس وہ میرے انتظار میں ہی کھڑی سے جیسے 

عمیر نے ہنس کر کہا : چلو پھر دیکھتے ہیں 



عدیل امریکا سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی پڑھائی کرتا ہے وہ یہاں پاکستان بہت کم آتا تھا 

عدیل اور عمیر دنوں بچپن کے دوست ہیں 

عدیل کے ابو رشید صاحب اسلام آباد کے بہت بڑے بزنس مین ہیں 

اور اُن کی بیگم (ثمینہ بیگم ہاؤس وائف ہے) 

ان کے دو بچے ہیں 

ایک عدیل اور دوسری اُس کی چھوٹی بہن ندا جو کہ اب انٹر میں ہے 

عدیل انٹر کرنے کے فورا بعد ہی سے اپنی آگے کی تعلیم کے لئے امریکا چلا گیا تھا 

وہ سال میں صرف ایک دفعہ ہی پاکستان آتا 

اُس کا پاکستان میں دل ہی نہیں لگتا تھا وہ شاید پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہتا تھا 



آشنا نے بے صبری سے پوچھا : پاپا اور کتنی دور ہے ہوٹل ؟؟

آغا صاحب نے گاڑی روک کر کہا : بیٹا آگیا ہوٹل 

آشنا جلدی سے گاڑی میں سے اتری 

اس نے سفید اور پنک رنگ کی شارٹ فراک جینس کے ساتھ پہنی ہوئی تھی  

کمر سے نیچے اُسکے کالے گنے بال کھلے ہوئے تھے 

اُس کی آنکھیں بڑی بڑی تھی جس پر اُس نے کاجل لگا کر اپنی آنکھوں کو اور خوبصورت بنایا تھا 

کانوں میں چھوٹےچھوٹے ایئر رنگز پہنے ہوئے تھے 

اور ہلکا سا لائٹ میک اپ ، ہونٹوں پر پنک رنگ کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی 

ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے ہاتھ میں بریسلیٹ پہنا ہوا تھا

وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی بلکہ موسم کی طرح 

موسم بھی بہت زیادہ حسین ہو رہا تھا 


آشنا جلدی سے ٹیبل پہ جاکے بیٹھ گئی 

ہوٹل پہاڑی علاقے کے نیچے تھا جہاں سے وادیاں اور پہاڑ صاف نظر آ رہے تھے 

آشنا نے جلدی سے پاستہ آرڈر کیا 

حاجرہ بیگم اور آغا صاحب نے بھی اپنے لئے کھانے آرڈر کیا 


آشنا نے جلدی سے پاستہ کھایا 

جبکہ آغا صاحب اور حاجرہ بیگم ابھی کھانا کھا رہے تھے 

آشنا نے آغا صاحب کو مخاطب ہو کر کہا : پاپا میں وہاں پہاڑی پر جا رہی ہوں میں نے تصویریں لینی ہے 

جلدی واپس آ جاؤں گی پکا 

آشنا کو تصویریں لینے کا بہت شوق تھا 

حاجرہ بیگم نے اُس کو مخاطب ہو کر کہا : چپ کر کے بیٹھ جاؤ

  کوئی ضرورت نہیں ہے کہی بھی جانے کی 

آشنا نے ضد کر کے کہا : پیلز جانے دیں 

آغا صاحب اپنی بیٹی سے پیار ہی اتنا کرتے تھے کہ اُس کی کوئی بھی بات نہیں ٹال سکتے تھے 

آغا صاحب نے آشنا کو دیکھ کر کہا : ہاں چلتے ہیں میں کھانا کھا لوں پھر ساتھ چلتے ہیں 

آشنا اٹھ کر کہنے لگی : پاپا آپ آرام سے بیٹھ کر اپنی بیگم کے ساتھ اِس حسین موسم کو انجوائے کریں 

میں خود چلی جاؤں گی 

ماما میک جلدی آجاؤں گی پریشان مت ہو 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 


حاجرہ بیگم نے اُس کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا : آرام سے جانا ، بہت پاگل لڑکی ہے 

آغا صاحب نے حاجرہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے کہا : تم فکر نہ کرو 

بہت سمجھدار ہے میری بیٹی 

حاجرہ بیگم نے منہ بنا کر کہا : آپ نے ہی اُس کو سر پر چڑھایا ہے 

آغا صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے : ایک ہی تو میری بیٹی ہے اب اس کے بھی لاڈ پیار نہ دیکھوں تو کس کے دیکھوں 


آشنا پہاڑوں پر گئی وہاں اچھی اچھی تصویریں لی 

آشنا پہاڑوں سے واپس آرہی تھی 

کہ اُس کا اچانک سے پیر سلب ہو گیا 

وہ گرنے ہی والی تھی کہ عدیل نے اُس کو گرتے ہوئے دیکھ لیا 

 اُس نے آشنا کا  ہاتھ کو زور سے پکڑا اور خود کی طرف کھینچا  

آشنا زور سے اُس کے گلے سے جا لگی 

آشنا نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لی 

عدیل نے آشنا کو کہا : آپ ٹھیک ہے نہ ؟؟؟

آشنا نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اُس کے سامنے کھڑی ہوگئی 

آشنا بہت ڈری ہوئی تھی 

عدیل نے آشنا کو دیکھا اور پھر پوچھا : آپ ٹھیک ہیں 

عمیر عدیل کے پاس آکر بولنے لگا : عدیل تم یہاں 

آشنا نے عدیل کو دیکھ کر کہا : 

Thank you 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی 

عدیل مسلسل آشنا کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا 

عمیر نے عدیل کو ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کہا : چلو اب عدیل 


جاری ہے ...........

Post a Comment

Previous Post Next Post