Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 5

 ناول پہلی محبت 

قسط 5 



پورے شہر میں رعیان کے نام سے پوسٹر لگ گئے  

یہ خبر آگ کی طرح پھیل رہی تھی کہ اس بار سکندر صاحب کا بیٹا رعیان سکندر الیکشن میں کھڑا ہوگا 

آج سکندر صاحب بہت خوش تھے 


رعیان ان سب سے بے خبر اپنے کمرے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا 

رعیان کے فون پر علی کی کال آئی 

رعیان نے فون اٹھایا 

علی نے فورا سے کہا : میں نے خبر سنی ہے کہ تو الیکشن میں کھڑا ہو رہا ہے 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : ہاں صحیح سنا ہے 

علی نے خوش ہو کر کہا : بہت اچھا کیا تو نے یہ فیصلہ کرکے اب تو اپنی زندگی کی طرف واپس آ جائے گا 

رعیان نے کہا : اب مجھے فرق ہی نہیں پڑتا کہ میری زندگی میں کیا ہو رہا ہے کیا نہیں 

علی نے رعیان کو سمجھاتے ہوئے کہا : بھول جا اپنے ماضی کو اور آج سے ایک نئی زندگی کی شروعات کر 

رعیان نے ہنس کر کہا : کتنا آسان ہے کہنا کہ بھول جاؤ آگے بڑھو 

تجھے پتا ہے وہ میری رگ رگ میں بسی ہوئی ہے 

میں کیسے اس کو بھول جاؤ 

مجھے خود سے نفرت ہونے لگی ہے 

محبت لفظ سے نفرت ہوگئی ہے 

لیکن اس سے نفرت نہیں ہو پا رہی ہے 

دل میں بہت غصہ ہے سمجھ نہیں آرہا کس پر غصہ نکالوں 

اُس پر یا خود پر 

میرا وجود ٹکروں ٹکروں میں بکھر چکا ہے 

اس کی یاد میں ہر رات میری آنکھوں سے آنسو آ جاتے ہیں 

رونا نہیں چاہتا ہوں لیکن روئے بنا رات بھی نہیں گزرتی



ایک علی ہی تھا جس سے رعیان اپنے دل ہی ہر بات کرتا تھا 

رعیان کے دل کا حال علی سے بہتر کوئی اور نہیں سمجھ سکتا تھا 


علی نے رعیان کو کہا : وہ تیرے آنسوؤں کے قابل نہیں ہے 

وہ ان آنسوؤں کے قابل ہوگی دیکھنا وہ تجھے کبھی نہیں رونے دے گی 

مجھے یقین ہے اس بات کا کہ تیری زندگی میں وہ لڑکی ضرور آئے گی جو تیرے بکھرے وجود کو اپنی محبت سے سمیٹ لے گی

رعیان نے غصہ سے کہا : تو پاگل تو نہیں ہے 

کنول کے علاؤہ اور کنول کے بعد میری زندگی میں کوئی اور نہیں آ سکتی اور یہ تجھے سے بہتر کوئی اور کیسے جان سکتا ہے 

تو سب جانتے ہوئے بھی یہ سب بول رہا ہے 

میں اپنی زندگی میں اب بس اکیلا رہنا چاہتا ہوں 

یہ کہہ کر رعیان نے فون بند کر دیا 




آفتاب رعیان کے کمرے کے باہر کھڑا تھا 

آفتاب نے رعیان کو مخاطب کر کے کہا : رعیان بابا آپ کو سکندر سائیں نیچے بلا رہے ہیں 

رعیان نے کہا : میں آرہا ہوں تم جاؤ 

اس کی آواز میں ایک درد تھا جو کوئی بھی نہیں پہچان پا رہا تھا 


رعیان نیچے گیا سب بیٹھے ہوئے تھے 

سکندر صاحب نے رعیان کو گلے لگا کر کہا : مجھے یقین تھا میرا بیٹا مان جائے گا 

اب تم دیکھنا تم ہی یہ الیکشن جیتو گے 

سکندر صاحب نے رعیان کو دیکھ کر کہا : آج شام کو میں نے چار بجے میڈیا کانفرنس رکھی ہے 

تم تیار رہنا کیونکہ تم نے بھی اس کانفرنس کا حصہ بننا ہے 

رعیان نے تلخ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا : ٹھیک ہے پاپا میں تیار رہوں گا 

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا 




زویا زویا ارم چلا رہی تھی 

زویا نے ارم کو دیکھ کر کہا : ارم تم تو ایسے چلا رہی ہو جیسے تم نے میرے لئے کوئی لڑکا ڈھونڈ لیا ہو 

ارم نے منہ بنا کر کہا : اف زویا تمہیں اس کے علاؤہ کوئی اور کام ہے 

زویا نے ہنس کر کہا : نہیں ہے 

ارم نے کہا : اچھا چھوڑو میرے پاس تمہیں دینے کیلئے ایک بہت بڑی نیوز ہے 

زویا نے کہا : بتاؤ 

ارم نے کہا : الیکشن ہو رہے ہیں نہ 

زویا نے ارم کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا : کتنی بار بولا ہے کہ میرے سامنے سیاست کی بات مت کیا کرو 

ارم نے منہ بنا کر کہا : ارے میری پوری بات تو سنو 

ارم نے کہا : اس بار جو الیکشن ہو رہے ہیں اُس میں سکندر صاحب کا بیٹا رعیان سکندر کھڑا ہو رہا ہے 

زویا نے منہ بنا کر کہا : تو میں کیا کروں 

ارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا : یار رعیان سکندر کیا لڑکا ہے 

لڑکیاں اس پر مرتی ہیں 

تو اُس کو دیکھے گی نہ تو بس دیکھتی رہے جائے گی 

اتنا ہینڈسم ہے رعیان 

میں تو پکا رعیان کو ہی ووٹ دوں گی 

زویا نے منہ بنا کر کہا : ہینڈسم ہے تو مجھے کیا 

نہ مجھے سیاست میں دلچسپی تو نہ اُس رعیان سکندر میں 

سمجھ آگئی 

ارم نے کہا : زویا ایک دفعہ اُس کی تصویر تو دیکھ لو 

زویا نے منہ بنا کر کہا : نہیں میں نے نہیں دیکھانا 

چل اب گھر چلیں 

زویا نے اپنی گاڑی نکالی 

زویا اور ارم دونوں گاڑی میں بیٹھے 

زویا گاڑی چلا رہی تھی 

ارم بار بار رعیان کی بات کر رہی تھی جس سے زویا کافی پریشان ہو رہی تھی 

زویا نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کی تو سامنے سے ایک گاڑی سے زویا کی گاڑی کی ٹکر ہوگی 

زویا نے ایک دم ہاتھ اوپر کر کے کہا : اف زویا یہ تو نے کیا کیا 

زویا نے ارم کو دیکھ کر کہا : تو کب سے رعیان رعیان کر رہی ہے یہ سب تیری اور تیرے رعیان کی وجہ سے ہوا ہے 

اب تو یہاں گاڑی میں بیٹھ میں دیکھ کر آتی ہوں 


زویا گاڑی سے باہر آئی 


ارم کے فون میں کال آگئی تو وہ کال میں بات کرنے میں مصروف ہوگئی 


زویا گاڑی کے باہر کھڑی تھی 

علی وہاں کھڑا تھا 

زویا نے علی کو دیکھ کر کہا : سوری غلطی سے ہوگیا 

آپ مجھے بتا دیں کتنے پیسے لگیں گے گاڑی کو ٹھیک کروانے میں ، میں اتنے پیسے دے دیتی ہوں 


پیسوں کا روب کس کو دیکھا رہی ہو تم

گاڑی کے اندر سے آواز آئی جو کہ رعیان کی تھی 

علی نے رعیان کو کہا : تو چپ کر میں بات کر رہا ہوں 

زویا نے علی کو دیکھ کر کہا : میں ایسا نہیں کر رہی ہوں 

میں نے غلطی کی ہے تو اس غلطی کا کفارہ ادا کر رہی ہوں 

میرا لڑائی کرنے کا کوئی موڈ نہیں ہے 

میں جلدی میں تھی اس لئے یہ ہوگیا میں معافی مانگ رہی ہوں

علی نے زویا کو کہا : اٹس اوکے 

آپ جائیں 

زویا جانے کیلئے مڑی تو پیچھے سے رعیان نے کہا : روکو 

تمہارے موڈ پر دنیا تھوڑی چلتی ہے 

گاڑی چلانے آتی نہیں تو گاڑی چلاتی کیوں ہو 


زویا کو غصہ آرہا تھا آج سے پہلے کسی نے زویا سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی 

آج پہلی بار اُس کو کسی نے اس طرح سے باتیں سنائی تھی 

وہ جیسے ہی مڑی اپنی انگلی کا اشارہ کر کے کہنے لگی : تم جانتے نہیں ہوں مجھے 

زویا چوھدری نام ہے میرا 

یہ بولتے ہوئے وہ پیچھے مڑی 

اُس نے رعیان کو دیکھا 

وہ بلیک رنگ کی شرٹ میں کافی اچھا لگ رہا تھا 

زویا نے ایک دم اپنے ہاتھ کی انگلی کو نیچے کیا 

زویا نے آج پہلی بار کسی لڑکے کو اتنی دیر دیکھا تھا 

رعیان نے غصہ سے کہا : زویا چوھدری ہوگی اپنے گھر میں یہاں نہیں سمجھ گئی 

تم جیسی لڑکیوں کا یہ ہی تو مسئلہ ہے گاڑی چلانے آتی نہیں ہے اور اپنے باپ کے نام سے پورے شہر میں ایسے گھومتی ہیں جیسے پورا شہر تمہارے باپ کا ہے 

زویا نے رعیان کو کہا : میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور میں نے معافی بھی مانگی ہے 

لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ آپ کے دل میں جو بھی آئے مجھے بولیں 

آپ مجھ کچھ بھی بول سکتے ہیں لیکن میرے پاپا کو ایک لفظ بھی نہ بولیں 

علی نے رعیان کو کہا : رعیان بس کر یہ تو کیا بول رہا ہے

انہوں نے سوری تو بولا ہے 

رعیان نے کہا : صحیح تو بول رہا ہوں 

گاڑی کو ٹکرا لگا دی اگر جان چلی جاتی کسی کی تو تب یہ کس کو سوری بولتی 

رعیان نے زویا کو کافی باتیں سنائیں

لیکن زویا نے اس کو آگے سے کچھ بھی نہیں کہا ورنہ جو باتیں رعیان نے کی تھی وہ کوئی اور کرتا تو زویا اس کو زندہ مار دیتی 

لیکن رعیان کی کوئی بات اُس کو بُری ہی نہیں لگ رہی تھی 

زویا ایک دم خاموش کھڑی بس اس کی باتیں ہی سن رہی تھی 


علی رعیان کو گاڑی میں لے کر گیا 

اور گاڑی میں بیٹھایا 

علی نے زویا سے سے معافی مانگی 

زویا نے کہا : کوئی بات نہیں 

یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی 

ارم جو کہ فون پر بات کر رہی تھی فون بند کیا اور کہا : کیا ہوا باہر ؟؟؟

زویا ایک دم چپ تھی 

زویا گاڑی چلا رہی تھی وہ مسلسل مسکرا رہی تھی 

ارم نے زویا کو دیکھ کر کہا : کیا ہوا زویا تو مسکرا کیوں رہی ہے 

زویا نے کہا : پتا نہیں کیوں مجھے اُس کی کوئی بات بُری نہیں لگی 

ارم نے حیران ہو کر کہا : کس کی 

زویا نے ارم کو ساری بات بتائی 

زویا نے کہا : ارم تجھے پتا ہے آج پہلی بار میں نے کسی لڑکے کو اتنی دیر دیکھا ہے ، میرا دل کر رہا تھا وہ بولتا جائے اور میں سنتی رہوں 

تجھے پتا ہے جب میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں بے تحاشہ غصہ تھا 

جو صرف میرے لئے تھا 

میں یہ ہی تو چاہتی تھی کہ جو لڑکا میری زندگی میں آئے 

اس کا ہر جذبہ صرف میرے لئے ہو 

پھر چاہے وہ محبت ہو یا غصہ صرف میرے لئے ہو 

مجھے لگتا ہے یہ وہ ہی ہے جس کا مجھے انتظار تھا 

ارم نے ہنس کر کہا : تو پاگل ہوگئی ہے 

زویا نے مسکرا کر کہا : ہاں پاگل ہوگئی ہوں 

ارم نے کہا : یار مجھے بھی دیکھنا ہے کہ آخر وہ کیسے دیکھتا ہے 

تجھے کوئی عام لڑکا تو پسند نہیں آنے سے رہا کوئی نہ کوئی تو خاص بات اُس میں ضرور ہوگی آخر زویا چوھدری کو پسند آیا ہے 




علی نے رعیان کو کہا : رعیان ویسے کچھ تو بات تھی اُس لڑکی میں 

رعیان نے کہا : کس لڑکی میں 

علی نے کہا : وہی زویا 

رعیان نے غصہ سے کہا : میرے سامنے اس لڑکی کا نام مت لے 

علی نے کہا : یار وہ اچھی لڑکی تھی

تجھے پتا ہے وہ بہت غصہ میں تھی لیکن جب اُس نے تجھے دیکھا تو بالکل خاموش ہوگئی 

وہ تجھے دیکھتی ہی رہے گئی 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : فالتو باتیں مت کر 

گاڑی جلدی چلا دیر ہو رہی ہے 



جاری ہے .......

Post a Comment

Previous Post Next Post