Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 1


 ناول پہلی محبت

قسط 1 


                         






زویا اٹھو یونیورسٹی جانے کیلئے دیر ہو رہی ہے 

زویا جلدی اٹھو ورنہ میں تمہارے پاپا کو بتاؤں گی پھر وہ ہی آکر تمہیں اٹھیں گے 

کلثوم بیگم زور زور اپنی بیٹی زویا کو اٹھا رہی تھی 

کلثوم بیگم نے پانی کا گلاس اٹھا کر زویا کے چہرے پر پانی گرایا 

زویا جلدی سے اٹھ کر کہنے لگی : اف ماما یہ کیا کیا آپ نے 

کلثوم بیگم نے ہنس کر کہا : ایسے تو تم اٹھتی نہیں 

زویا نے منہ بنا کر کہا : واہ  تو کیا مطلب آپ مجھے اب ایسے اٹھائی گئی 

کلثوم بیگم نے زویا کو سمجھاتے ہوئے کہا : زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے چلو اٹھو تیار ہو جاؤ یونیورسٹی جانے کیلئے دیر ہو رہی ہے 

زویا نے کلثوم بیگم کی گود میں سر رکھ کر کہا : ماما آپ ہمیشہ غلط وقت پر اٹھاتی ہیں 

ابھی میرے سپنوں کا راج کمار آنے کی والا تھا کہ آپ نے اُس پر پانی پھیر دیا 

کلثوم بیگم نے کہا : خدا کا خوف کرو لڑکی تمہارے پاپا نیچے ہی بیٹھے ہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی 

زویا نے ہنس کر کہا : ماما اس میں شرم کی کون سی بات ہے 

آپ نے میری شادی نہیں کرنی کیا 

بس خواب میں آپ کے ہونے والے داماد کو ہی دیکھ رہی تھی 

کلثوم بیگم نے کہا : دن میں خواب دیکھنا چھوڑ دو 

زویا نے اترا کر کہا : زویا چوھدری  وہ خواب ہی نہیں دیکھتی جو حقیقت نہ بن سکے

اور ویسے بھی مجھے خوابوں کو حقیقت بنانا بہت اچھے سے آتا ہے 


زویا جاوید چوہدری اور کلثوم بیگم کی اکلوتی بیٹی ہے 

زویا بہت ہی دعاؤں کے بعد پیدا ہوئی ہے 

جاوید چوہدری اور کلثوم بیگم کی شادی کے چھ سال کے بعد زویا پیدا ہوئی تھی 

جاوید چوہدری اپنی بیٹی کی ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں

جاوید چوہدری فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر ہیں 


کلثوم بیگم نے زویا کو سمجھاتے ہوئے کہا : بیٹا یہ دنیا بہت خراب ہے یہ جینے نہیں دیتی 

خوابوں جیسی نہیں ہے  اس دنیا کی حقیقت بہت تلخ ہے 

زویا نے منہ بنا کر کہا : ماما پھر شروع ہوگئی آپ کی بُورنی باتیں 

کیسے کر لیتی ہیں آپ یہ باتیں 

پتا نہیں میرے پاپا نے کیسے آپ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں 

کلثوم بیگم نے ہنس کر کہا : تم سے کوئی نہیں جیت سکتا 

اب بس کر جاؤ اٹھو جلدی یونیورسٹی جانا ہے 

زویا نے منہ بنا کر کہا : اچھا اٹھ رہی ہوں اس گھر میں کسی کو میری خوشی راس ہی نہیں آتی سوائے میرے پاپا کے 

یہ کہہ کر وہ اٹھی اور واش روم میں چلی گئی 



اس بار کے الیکشن ہم لوگ ہی جیتیں گے 

سکندر صاحب نے بڑے غرور سے کہا 

رعیان کہاں ہے 

سکندر نے سامنے کھڑے ملازم سے پوچھا 

ملازم نے جواب دیتے ہوئے کہا : 

سائیں چھوٹے صاحب اپنے دوست کے ساتھ شکار پر گئے ہیں 

سکندر صاحب نے غصہ سے کہا : سارا دن یہ لڑکا اپنے دوستوں سے ساتھ باہر ہوتا ہے 

میرے بعد آخر رعیان نے ہی یہ سب سنبھالنا ہے لیکن وہ کسی چیز کو سیریس لیتا ہی نہیں ہے جاؤ جا کر عمر کو کہو کہ اُس کو فون کرے 

اِس گھر میں ایک عمر ہی تو ہے جس کو وہ بات مانتا ہے باقی سب تو اُس کو اپنے دشمن لگتے ہیں


سکندر صاحب سیاست دان ہیں جن کے دو بیٹا عمر اور رعیان ہیں 

عمر اپنا بزنس چلاتا ہے اُس کی بیوی (مائرہ) ہاؤس وائف اور ان کا ایک چھوٹا بیٹا شایان ہیں 

اُس کے بعد رعیان سکندر ہیں جنہوں نے ابھی یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں گریجویشن کی تھی 

سکندر صاحب رعیان کو اب سیاست میں لانا چاہتے تھے

 رعیان سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا

اُس کے بعد ان کی چھوٹی بہن ایمان ہے جو کہ ابھی کالج کے فرسٹ ایئر میں ہے 

سکندر صاحب کی اہلیہ زینب بیگم بچپن میں ہی وفات پا چکی تھی 

ان کی وفات کے بعد سکندر صاحب نے خود اپنے بچوں کی پرورش کی 

بچوں کی وجہ سے انہوں نے دوسری شادی بھی نہیں کی 



رعیان عمر بھائی کا فون آیا تھا تیرے پاپا تجھے یاد کر رہے ہیں 

علی نے رعیان کو مخاطب کر کے کہا 

رعیان جو کہ شکار کرنے میں مصروف تھا 

اُس نے بندوق نیچے رکھی 

اور بیزاری سے کہنے لگا : انہیں مجھے ڈانٹنے کے علاوہ اور کام کیا ہو سکتا ہے 

کتنی دفعہ میں نے بولا ہے کہ مجھے ان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن پھر بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے 

عمر بھائی ہیں نا وہ سنبھال تو رہے ہیں پھر میں کیوں ؟؟؟؟

مجھے اِس بات کی سمجھ نہیں آتی 

علی نے رعیان کو سمجھاتے ہوئے کہا : عمر بھائی کا اپنا بھی تو بزنس ہے وہ اُس کو دیکھیں یا پھر تیرے پاپا کی سیاست کو ، اور ویسے بھی تیرے پاپا چاہتے ہیں کہ تو

 ایم این اے بن جائے تو اِس میں غلط ہی کیا ہے 

رعیان نے غصہ سے کہا : اچھا بس اب تو مت شروع ہو جا ، گھر جاتا ہوں تو پاپا اور عمر بھائی شروع ہو جاتے ہیں 

علی نے ہنس کر کہا : ٹھیک ہے اب چلیں گھر ورنہ تیرے پاپا نے ‏گارڈز کی ساری گاڑیاں یہاں تجھے لینے کیلئے بھیج دینی ہیں 


علی رعیان کا بچپن کا دوست ہے 

رعیان اپنے دل کی ہر بات علی کو بتاتا ہے 



علی اور رعیان دونوں گاڑی میں بیٹھے اور گھر جانے کیلئے روانہ ہوگئے 



......جاری ہے 





Post a Comment

Previous Post Next Post