Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 15

 ناول پہلی محبت 

قسط 15 



منگنی کے ایک ہفتے بعد سکندر صاحب اور عمر جاوید صاحب گھر آئے 

سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے 

زویا بھی ان سے آ کر ملی اور واپس باہر چلی گئی 

سکندر صاحب نے جاوید صاحب کو مخاطب کر کے کہا : جاوید اب ہمیں شادی کی ڈیٹ دے دو اب ہم سے اور انتظار نہیں ہو رہا ہے 

اس سے پہلے جاوید صاحب کچھ بولتے 

کلثوم بیگم نے کہا : بھائی صاحب اتنی جلدی ؟؟؟

سکندر صاحب نے خوش ہو کر کہا : ہم اپنی بیٹی کو جلدی ہی اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں 

جاوید صاحب نے کہا : زویا کے پیپر ہیں تو ایسا کرتے ہیں ایک مہینے بعد پہلے ہی ہفتے میں زویا اور رعیان کی شادی کر دیتے ہیں 

سکندر صاحب نے خوش ہو کر کہا : ٹھیک ہے 

کلثوم بیگم نے سب کو مٹھائی دی سب نے اپنا منہ میٹھا کیا 

زویا جو کہ دروازے پر چھپ کر ان کی ساری باتیں سن رہی تھی وہ یہ خبر سن کر ایک دم بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی 

زویا نے جلدی سے ارم کو فون کیا 

دوسری جانب سے جیسے ہی فون اٹھایا گیا 

زویا نے فوراً ہی کہا : ارم میری شادی ہو رہی ہے 

ارم نے چونک کر کہا : زویا تو پیپر نہیں دے گی کیا ؟؟

زویا نے منہ بسورتے ہوئے کہا : یہ پیپر ہی بیج میں آ گئے ورنہ تو میری برات کل پرسوں تک آ جانی تھی 

ارم نے حیران ہو کر پوچھا : کیا مطلب ؟؟

زویا نے خوشی سے کہا : پیپر کے اگلے مہینے پہلے ہفتے میں میری شادی ہے 

ارم نے خوش ہوتے ہوئے کہا : ارے واہ بھائی ... مجھے لگتا ہے تیرے سے زیادہ جلدی تو رعیان کو ہے 

زویا نے ہنس کر کہا : ہاں ، مجھے بھی تو آج ہی پتہ چلا اس کو مجھ سے شادی کرنے کی اتنی جلدی ہے 

لیکن تجھے پتا ہے جب سے ہماری منگنی ہوئی ہے نہ اس نے مجھے ایک بار کال تو کیا میسج بھی نہیں کیا 

اور اگر میں میسج کر دوں تو کوئی رپلائی ہی نہیں دیتے کھڑوس کہی کا ....!!! 

زویا نے منہ بسورتے ہوئے کہا 

ارم نے ہنس کر کہا : بھائی رعیان مصروف ہو گئے نہ ...!!!

زویا نے منہ بنا کر کہا : اب اتنی بھی کیا مصروفیت کہ اپنی ہونے والی بیوی کیلئے وقت نہیں ہے 

ارم نے زویا کو سمجھاتے ہوئے کہا : اب رعیان بھائی کو چھوڑ اور پڑھائی پر دھیان دے فائنل ایگزام ہیں ، پاس ہونا ہے نہ ...

زویا نے ہنس کر کہا : کام تو یہ ذرا مشکل ہے کیونکہ اب دن رات مجھے رعیان کا ہی خیال آئے گا لیکن میں کوشش کروں گی 

ارم نے ہنستے ہوئے کہا : اچھا ٹھیک ہے 

یہ کہہ کر اس نے فون رکھا 

زویا نے مسکراتے ہوئے خود کلامی کی 

کبھی کبھی انسان کی خواہش اتنی جلدی قبول ہو جاتی ہے کہ اس کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے رب کا کن الفاظوں میں شکر ادا کرے اور اس وقت خدا پر بے حد پیار آتا ہے 



علی اور رعیان دونوں ریسٹورنٹ  میں بیٹھے تھے 

رعیان 

Coffee 

پی رہا تھا 

علی نے رعیان کو مخاطب کر کے کہا : رعیان تو پکا زویا سے شادی کرنے کیلئے تیار ہے 

رعیان نے غصہ سے کہا : میں تو شادی کرنے کیلئے ہی تیار نہیں تھا 

لیکن پاپا کی وجہ سے مجھے تیار ہونا پڑا 

علی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا : مجھے لگتا ہے زویا تجھ سے محبت کرتی ہے 

رعیان نے ایک دم علی کو گھورا اور کہا : آج بول دیا ہے آئندہ ایسا مت بولنا 

علی نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : یار سچ میں مجھے ایسا لگتا ہے تو نے دیکھا نہیں منگنی والے دن اس کی خوشی اس کے چہرے سے صاف نظر آرہی تھی 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : وہ لڑکی جو مرضی کرے مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے اور جو اس کے چہرے پر تجھے خوشی نظر آئی تھی نہ تو دیکھنا کیسے میں اس کی وہ خوشی اس سے چھین لوں گا 

علی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا : اس کی زندگی کیوں برباد کر رہا ہے ؟؟

رعیان نے ہنس کر کہا : وہ خود اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہے تو میں کیا کروں وہ جانتی ہے میں اس سے کتنی نفرت کرتا ہوں پھر بھی وہ شادی کرنے کیلئے تیار ہوگئی 

علی نے کہا : کیا پتا وہ سچ میں تجھے سے بے حد محبت کرتی ہو 

رعیان نے منہ بسورتے ہوئے کہا : بکواس بند کر وہ لڑکی صرف خود سے محبت کر سکتی ہے اور میں نے تجھے پہلے بھی بتایا ہے وہ میرے گھر میری بیوی بن کر نہیں بلکہ اس گھر کی بہو بن کر آئے گی 


زویا نے بہت بار رعیان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار ناکام ہو جاتی 

کچھ ہی دنوں کے بعد زویا کے امتحان شروع ہوگئے ، زویا اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی 

زویا کے ایگزام ختم ہو چکے تھے 

شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھی 


آج شام زویا کی ڈھولکی تھی 

پورے گھر کو پھولوں سے سجایا ہوا تھا 

زویا نے بھی نارنجی رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی 

ہلکا سا میک اپ اور پھولوں والے جھمکے پہنے ہوئے تھے 

بالوں میں چٹیا بنائی ہوئی تھی اس کے گرد پھولوں کی لڑی لگائی 

زویا بہت خوبصورت لگ رہی تھی 

زویا بہت خوش تھی 

ارم اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی 

زویا نے ارم کو مخاطب کر کے کہا : میں نے کہا تھا نہ رعیان سکندر صرف اور صرف زویا چوھدری کا ہے اور دیکھ وہ میرا ہونے جا رہا ہے بس کچھ دن کے بعد وہ میرا ہو جائے گا 

کل میں اس کے نام کی مہندی لگاؤں گی پرسوں اس کے نام کی ہو جاؤں گی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں 

ارم نے خوش ہوتے ہوئے کہا: خدا تجھے ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے تیری خوشیوں کو کیسی کی نظر نا لگے 

زویا نے ہنس کر کہا : چل اب ڈانس کرنے ہیں 

زویا اور ارم نے مل کر خوب ڈانس کیا 

جاوید صاحب نے کلثوم بیگم کو مخاطب کر کے کہا : زویا ماشاللہ سے کتنی خوش لگ رہی ہے 

کلثوم بیگم نے ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا : ہاں جی بس اللہ تعالیٰ اس کو ایسے ہی ہمیشہ مسکراتا ہوا رکھے 

جاوید صاحب نے خوش ہو کر کہا : آمین ، مجھے یقین ہے کہ سکندر میری جان کا بہت اچھے سے خیال رکھے گا اس کو پتا ہے میں زویا سے کتنی محبت کرتا ہوں اور اس کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا 

کلثوم بیگم نے کہا : جی میں بھی یہ ہی دعا کرتی ہوں کہ بس

زویا اُس گھر جا کر بھی خوش رہے اور وہ لوگ زویا کو اتنا ہی پیار دیں جتنا ہم لوگ اُس سے کرتے ہیں 

جاوید صاحب نے اپنی بیگم کو تسلی دیتے ہوئے کہا : انشاللہ ایسا ہی ہوگا 


سب نے کھانا کھایا اور ڈھولکی کا فنکشن ختم ہوگیا 



سکندر صاحب نے عمر کو مخاطب کر کے کہا : عمر کل رعیان کی مہندی کی رسم کرنی ہے 

عمر نے منہ بنا کر کہا : پاپا رعیان نے پہلے ہی منع کر دیا تھا کہ کوئی فنکشن نہیں ہوگا بس سمپل سا نکاح ہوگا 

سکندر صاحب نے پریشان ہوتے ہوئے کہا: یہ کیا بات ہوئی لوگ کیا بولیں گے تم اس کو سمجھاؤ 

عمر نے سکندر صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا : پاپا میں جانتا ہوں رعیان کو وہ نہیں مانیں گا 

اچھا ہوگا کہ ہم رعیان کو زیادہ زور نہ دیں ایسا نہ ہو کہ وہ شادی سے ہی انکار کر دے 

شادی کے بعد ولیمہ کا فنکشن ہوگا نہ تو ہم اُس پر سب کو بلا لیں گے 

سکندر صاحب نے کہا : چلو یہ بھی ٹھیک ہے 

ماہرہ گھر میں داخل ہو رہی تھی کہ سکندر صاحب نے ماہرہ کو مخاطب کر کے کہا اُس کو اپنے پاس بلایا 

ماہرہ نے منہ بنا کر کہا : جی بولیں کیا بات ہے ؟؟

سکندر صاحب نے کہا : بیٹا پرسوں رعیان کی برات جائے گی تو تھوڑی بہت تیاریاں گھر میں دیکھ لو 

ماہرہ نے غصہ سے کہا : پاپا جب رشتہ میرے بغیر ہو سکتا ہے ، منگنی میرے بغیر ہوسکتی ہے تو شادی کیوں نہیں 

سکندر صاحب نے کہا : کیا مطلب آپ شادی پر نہیں جائیں گی 

ماہرہ نے منہ بنا کر کہا : کیا میرا شادی پر جانا ضروری ہے ؟؟

سکندر صاحب نے کہا : ہاں جی بہت ضروری ہے آپ رعیان کی بڑی  بھابھی ہیں  اور ہم سب نے آپ کو کہا تھا کہ چلیں منگنی پر لیکن آپ کی خود کی مرضی تھی اس لیے آپ نہیں گئی لیکن آپ کا شادی میں ہونا ضروری ہے 

ماہرہ نے منہ بنا کر کہا: بڑی بھابھی اِس گھر کے لوگوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں سمجھا ..!!!

عمر نے غصہ میں کہا : تمہیں اپنی ذمداریوں کا بھی احساس ہونا چاہیے 

ماہرہ نے کہا : پاپا آپ سے اور گھر کے لوگوں سے میں کیا شکایت کروں جب میرا شوہر ہی میرے ساتھ نہیں ہے 

سکندر صاحب نے عمر کو کہا : عمر تم چپ کرو اور ماہرہ سے مخاطب ہو کر کہا : آپ شادی پر جائیں گی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے 

ماہرہ نے بنا بات کو لمبے کیے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی 

سکندر صاحب نے عمر کو کہا : ماہرہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو 

عمر نے منہ بنا کر کہا : وہ اس کے لائق نہیں ہے دیکھا نہیں کتنی بدتمیزی کرتی ہے 

سکندر صاحب نے عمر کو سمجھایا : دیکھو بیٹا میاں بیوی کا رشتہ بہت نازک ہوتا ہے اس کو پیار، بھروسہ کے ساتھ مضبوط کرنا پڑتا ہے 

عمر نے کہا : ٹھیک ہے پاپا میں آئندہ سے خیال رکھوں گا 


رعیان اپنے کمرے میں جارہا تھا کہ ماہرہ نے رعیان کو دیکھا اور کہا : رعیان شادی کر رہے ہو ؟؟

رعیان نے کہا : بھابھی مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی 

یہ کہہ کر وہ جانے لگا تھا کہ ماہرہ نے کہا : سنا ہے تمہاری ہونے والی بیوی بہت ہی خوبصورت اور اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی ہے 

نخرے تو بہت ہوگے اُس میں سنھبال لو گے 

رعیان جا رہا تھا تو ماہرہ نے کہا : پسند کی شادی کر رہے ہو یا پاپا نے مجبور کیا ہے ؟؟؟

رعیان نے ماہرہ کی طرف منہ کر کے کہا : بھابھی اگر آپ گھر میں ہوتی تو آپ کو پتہ چلتا نہ گھر میں ہو کیا رہا ہے 

ماہرہ نے ہنس کر کہا : ارے دیور جی آپ تو کچھ زیادہ ہی غصہ کر رہے ہیں لگتا ہے پاپا نے کچھ زیادہ ہی زبردستی کی ہے لیکن تم فکر نہ کرو تمہاری بیوی کو میں سب سمجھا دوں گی 

رعیان بنا کچھ بولے وہاں سے چلا گیا 

 

عمر کام کی وجہ سے ماہرہ کو وقت نہیں دے پاتا تھا جس کی وجہ سے ماہرہ بہت لاپرواہ ہوگئی تھی 

ماہرہ پارٹیوں پر جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر گھر سے باہر ہی رہتی تھی ماہرہ نا تو کوئی ذمداری گھر کی دیکھتی اور نہ ہی گھر کو سنبھالتی وہ بس شوپنگ کرنے میں اور پارٹیزس کرنے میں مصروف رہتی



جاوید صاحب مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے 

آج مہندی کا فنکشن تھا 

زویا تیار ہو کر اپنے کمرے میں بیٹھی تھی 

زویا نے آج سبز رنگ کا بھاری شرارہ پہنا ہوا تھا 

جس پر اُس نے بڑے بڑے جھمکے پہنے تھے ہاتھوں میں چوڑیاں ، گجرے پہنے ہوئے تھے  بالوں میں آگے سے ڈیزائن بنایا ہوا  تھا اور پیچھے سے بال کھلے تھے 

زویا بے حد خوبصورت لگ رہی تھی 

اور زویا کی خوشی اس خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی تھی 

اس کی خوشی اس کے چہرے سے صاف نظر آرہی تھی 

ارم نے زویا کو دیکھ کر کہا : ماشاللہ زویا آج تو تیرے چہرے پر الگ ہی رونق ہے 

زویا نے ہنس کر کہا : رعیان کی محبت اور اس سے شادی اس رونق کی وجہ ہے 

ارم زویا کو لے کر نیچے آئی 

سب زویا کو ایک دم دیکھتے ہی رہے گئے 

زویا کو جھولے میں بیٹھایا جو پورا پھولوں سے سجا ہوا تھا 

سب نے زویا کی رسم کی 

سب نے مل کر خوب انجوائے کیا 

فنکشن ختم ہونے کے بعد زویا رعیان کو کال کر رہی تھی 

رعیان کال پک ہی نہیں کر رہا تھا 

مہندی والی زویا کو مہندی لگا رہی تھی 

زویا بہت خوشی خوشی مہندی لگا رہی تھی 

ارم نے زویا کو کہا : زویا تجھے تو مہندی کبھی پسند ہی نہیں تھی اور آج تو اتنی خوشی خوشی مہندی لگوا رہی ہے 

زویا نے ہنس کر کہا : مہندی پسند نہیں ہے لیکن یہ مہندی صرف مہندی نہیں ہے یہ تو رعیان کے نام کی مہندی ہے جس کا میں کب سے انتظار کر رہی تھی 

زویا نے کہا : چل اب میری تصویر بنا مہندی کے ساتھ میں نے دعیان کو سینڈ کرنی ہے 

ارم نے تصویر لی 

زویا نے رعیان کو اپنی تصویر سینڈ کی 


رعیان اپنے کمرے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا 

رعیان کے موبائل پر میسج آیا 

رعیان نے میسج دیکھا تو زویا کی تصویر دیکھ کر ایک پل کے لیے تو رعیان بھی اس کو دیکھتا ہی رہے گیا لیکن رعیان کی آنکھیں زویا میں کسی اور کو ڈھونڈ رہی تھی 

نیچے

 caption

لکھا ہوا تھا 

زویا چوھدری نے رعیان سکندر کے نام کی مہندی لگوا لی اب سے زویا رعیان سکندر ...... آگے اس نے دل والی ایموجی لگائی تھی 

رعیان نے غصہ سے موبائل کو بیڈ پر پھینکا 


رعیان نے تلخ ہنسی میں کہا : محبت کتنا بے بس کر دیتی ہے ٹھیک اُسی طرح کنول تمہاری محبت نے مجھے  اتنا بے بس کر دیا ہے کہ مجھے جس لڑکی سے اتنی زیادہ نفرت ہے آج اُس سے ہی شادی کرنے جا رہا ہوں 

کاش کنول تم اُس کی جگہ ہوتی تو میرے نام کی مہندی تمہارے ہاتھ میں ہوتی جس کا میں کب سے انتظار کر رہا تھا لیکن اب مجھے لگتا ہے میرا یہ کاش کاش ہی رہے جائے گا اور یہ انتظار کبھی نہ ختم ہونے والا انتظار بن جائے گا 




جاری ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post