Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 16

 ناول پہلی محبت 

قسط 16 


زویا رعیان کے میسج کا انتظار کر رہی تھی لیکن رعیان نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا 

زویا نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا : فنکشن میں مصروف ہوگا ورنہ وہ رپلائی ضرور دیتا 

زویا کا دل ایک دم سے گھبرا رہا تھا 

اُس کو بے چینی ہو رہی تھی 

زویا نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا مجھے اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے آج سے پہلے تو کبھی مجھے اتنی بے چینی نہیں ہوئی 

کیا رعیان اس شادی سے خوش ہوگا ؟؟؟

زویا نے خود کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا : 

off course 

وہ خوش ہی ہوگا تب ہی تو اُسنے میرے گھر رشتہ بھیجا تھا میں بھی نہ پتہ نہیں کیا الٹی سیدھی باتیں سوچ رہی ہوں 

لگتا ہے میں کچھ زیادہ ہی تھک گئی ہوں 

اتنے میں کلثوم بیگم زویا کے کمرے میں آئی 

کلثوم بیگم کو دیکھتے ہی زویا نے اپنے دونوں ہاتھ ان کو دکھائے اور کہا : ماما دیکھیں میری مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے اس کا مطلب تو یہ ہی ہوا نہ کہ رعیان مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں 

کلثوم بیگم نے اس کو بیڈ پر بیٹھایا اور کہا : خدا کرے بیٹا رعیان تم سے بہت محبت کرے بلکل رانی بنا کر رکھے جیسے تمہارے پاپا نے تمہیں رکھا ہے لیکن بیٹا میری ایک بات یاد رکھنا 

زویا نے جلدی سے پوچھا : ماما کونسی ؟؟

کلثوم بیگم نے کہا : بیٹا انسان کو رشتہ نبھانے کیلئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور رشتے کو مضبوط کرنے کیلئے کسی ایک انسان کو سمجھوتہ کرنا ضروری ہوتا ہے  ورنہ رشتے کی ڈور کھل جاتی ہے 

زویا نے کہا : ماما آپ کیا بول رہی ہیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے اور یہ کس چیز کا سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ؟؟

کلثوم بیگم نے زویا کو سمجھاتے ہوئے کہا : ہم جب کسی رشتے سے جڑتے ہیں تو ہم بہت سی امیدیں لگا لیتے ہیں لیکن جو امیدیں ہم نے لگائی ہیں اگر وہ پوری نہ ہو تو اُس صورت ہمیں اپنا رشتہ نبھانے کیلئے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے 

زویا نے ہنس کر کہا : ماما  آپ کو پتا ہے میں نے آج تک کسی بھی رشتہ کو نبھانے کیلئے یا کسی کی چیز کی چاہ میں سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور ویسے بھی 

آپ فکر نہ کریں میں نے جو چیز چاہی تھی وہ مجھے ملی گئی ہے 

تو اب سمجھوتہ کیسا؟؟؟

کلثوم بیگم نے کہا : بیٹا تم ہماری اکلوتی بیٹی ہو اور تم جانتی ہو تمہارے پاپا تم سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے تمہیں اپنی کسی بھی چاہ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنے دیا ، جب جو چیز تم نے چاہی وہ تمہیں ملی  

بیٹیاں والدین کے گھر میں رانی ہوتی ہیں وہاں ان کی ساری خواہشیاں پوری کی جاتی ہیں لیکن یہ ضروری تو نہیں وہ جس گھر میں بیاہ کر جائیں وہاں بھی ان کی ساری خواہشیاں پوری کرنے والا کوئی ہو 

سسرال جا کر لڑکی کو سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے کبھی اپنی ضد چھوڑ کر ، کبھی اپنی خواہش مار کر تو کبھی اپنی عزتِ نفس کو مجروح کر کے لیکن میں سکندر بھائی کو جانتی ہوں وہ تمہارا بہت خیال رکھیں گے لیکن پھر بھی سسرال آخر سسرال ہی ہوتا ہے تو کبھی بھی اگر کوئی بات تمہیں بُری لگے تو غصہ مت ہونا بس صبر رکھنا 

زویا نے ہنس کر کہا : ماما سکندر انکل مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور باقی لوگ بھی سب مجھے پسند کرتے ہیں تو آپ فکر نہ کریں ایسا کچھ نہیں ہوگا 

کلثوم بیگم نے زویا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا : انشاللہ اللہ پاک تمہیں ایسے ہی مسکراتے ہوئے رکھے اور جیسا تم سوچ رہی ہو بلکل ویسا ہی ہو 

زویا نے کلثوم بیگم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا کر کہا : ماما میں بہت خوش رہنے والی ہوں کیونکہ رعیان کی محبت میرے ساتھ ہوگی 

کلثوم بیگم نے کہا : خدا تمہاری خوشیوں کو بُری نظر سے بچائے 

زویا نے مسکرا کر کہا : آمین 

کلثوم بیگم نے جانے لگی تو زویا نے کہا : ماما میں آج آپ کی گود میں سونا چاہتی ہوں کل تو میری شادی ہو جائے گی میں آپ لوگوں کو بہت مس کروں گی آپ لوگ مجھے بھول تو نہیں جائیں گے 

کلثوم بیگم نے کہا : پاگل بھلا ماں باپ بھی کبھی اپنی اولاد کو بھولتے ہیں کیا .. اور تم تو ہماری جان ہو اِس گھر کی رونق ہو تم چلی جاؤں گی تو یہ گھر بلکل ویران ہو جائے گا 

زویا نے ہنس کر کہا : ارے ہاں جب میری جیسی اتنی پیاری بیٹی ہو تو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں اور آپ بے فکر رہیں میں رعیان کو بولوں گی مجھے ہر شام یہاں لے کر آئے 

کلثوم بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا : رعیان کو اب زیادہ تنگ مت کرنا 

زویا نے ہنس کر کہا : ماما میں اب رعیان کو نہیں تو اور کس کو تنگ کروں گی 

کلثوم بیگم نے ہار مانتے ہوئے کہا : اچھا بابا تم تمہیں ٹھیک لگے وہی کرنا تم سے تو کوئی بھی باتوں میں نہیں جیت سکتا 

زویا نے ہنس کر کہا : جی ماما یہ تو ہے 

تھوڑی دیر کے بعد کلثوم بیگم کی گود میں ہی سویا سو گئی تھی 

کلثوم بیگم نے اس کا سر تکیہ پر رکھا اور اس کے ماتھے پر بوسہ کیا اور مسکراتے ہوئے کہا : میری پیاری اور تھوڑی جھلی بیٹی 

کلثوم بیگم زویا کے کمرے سے باہر گئی 


صبح ہوئی 

زویا کی آنکھ کھلی زویا جلدی سے بیڈ پر سے اٹھ کر شیشے کے سامنے آئی اور مسکراتے ہوئے کہا : میری لائف کا سب سے بیسٹ دن جب میں رعیان کی ہو جاؤں گی اور رعیان میرا....!!!

رعیان اٹھا علی بھی آچکا تھا 

علی نے رعیان کو مخاطب کر کے کہا : رعیان شادی آج تیری ہے لیکن خوش میں بہت ہوں 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : تو کیوں خوش ہے؟؟

علی نے مسکراتے ہوئے کہا : میرے اکلوتے دوست کی شادی ہے اور میں خوش بھی نہ ہو 

رعیان نے منہ بسورتے ہوئے کہا : جب دوست ہی خوش نہیں ہے تو تجھے خوش ہو کر کیا کرنا ہے 

علی نے رعیان کو کہا : یار آج تیری لائف کا سب سے بیسٹ دن ہے آج سے تیری لائف تبدیل ہوگی 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : تجھے کس نے کہا کے یہ میری لائف کا سب سے بیسٹ دن ہے 

یہ میری لائف کا سب سے بُرا دن ہے جو میں چاہتا ہوں پھر کبھی کسی سال میں یہ دن نا آئے 

لائف تو اُس زویا کی تبدیل ہوگی جو ہر روز مجھے سے شادی کرنے پر پچھتائے گی

میرا یہ دن جس کی وجہ سے بُرا ہے تو دیکھنا میں اُس کو بھی زیادہ دیر خوش نہیں رہنے دوں گا 

اب سے زویا چوھدری کے برے دن شروع ...!!!

علی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا : تو اُس کے ساتھ کیا کرے گا 

رعیان نے کہا : تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ٹھیک ہے نہ اب چل ناشتہ کرنے چلتے ہیں 


سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے رعیان اور علی بھی آکر ناشتہ کے لیے بیٹھ گئے 

ماہرہ نے ایمان کو مخاطب کر کے کہا : ایمان آج ہم نے رعیان کا کمرا اچھے سے لال گلاب کے پھولوں سے سجانا ہوگا آخر شادی کی رات کمرا تو سجا ہوا ہونا چاہئیے نا ...!!! 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : میرا کمرا سجانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے 

سکندر صاحب نے کہا : کیوں ضرورت نہیں ہے ، ماہرہ بلکل ٹھیک بول رہی ہے کمرہ تو سجا ہونا چاہیے 

سکندر صاحب نے ایمان اور ماہرہ کو مخاطب کر کے کہا : رعیان کا کمرا بہت اچھے سے سجا ہونا چاہیے 

رعیان بنا ناشتہ کیا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا 

علی رعیان کے پاس گیا 

علی نے رعیان کو کہا : یہ ماہرہ بھابھی تجھے اس طرح کیوں گھور رہی تھی 

رعیان نے کہا : کیونکہ وہ سب جانتی ہیں 

علی نے حیران ہو کر کہا : کیا سب؟؟؟

رعیان نے کہا : کنول کے بارے میں 

علی نے چونک کر کہا : مگر کیسے ؟؟؟

رعیان نے کہا : کنول ان کی خالہ کی بیٹی ہے 

علی نے پریشان ہو کر کہا : یار یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہوگیا اگر انہوں نے زویا کو سب بتا دیا تو....

رعیان نے بے فکری سے کہا : تو بتا دیں میں اُس سے ڈرتا تھوڑی ہوں 

علی نے سوال پوچھا : تو خود زویا کو یہ سب نہیں بتائے گا 

رعیان نے ہنس کر کہا : وہ میرے لئے اتنی اہمیت نہیں رکھتی جو میں اُس کو یہ سب بتاؤں 



زویا نے ارم کو کہا : ارم میں پارلر نہیں جاؤں گی 

ارم نے کہا : کیوں 

زویا نے کہا : کیونکہ میرا ابھی گھر کے باہر جانے کا کوئی موڈ نہیں ہے 

تو پاپا تو بولو کہ اُس پارلر والی کو گھر بلا لیں 

ارم نے کہا : کچھ تو عقل کر ، اب یہ ساری دنیا تیرے موڈ کے حساب سے تھوڑی چلیں گی اب تو تیری شادی ہونے والی ہے یہ پاگلوں جیسی حرکتیں چھوڑ دے 

زویا نے منہ بنا کر کہا : میں جیسی ہوں میں ویسی ہی رہوں گی 

اور میں وہی کروں گی جو میرا دل کرے گا  

زویا نے جاوید صاحب کو کہا : پاپا میرا گھر سے باہر جانے کا بلکل موڈ نہیں ہے تو آپ پارلر والی کو یہاں بلا لیں 

جاوید صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا : ٹھیک ہے میں اُس کو گھر بلا لیتا ہوں 

زویا نے جاوید صاحب کے گلے لگ کر کہا : پاپا آپ سب سے بیسٹ ہو 

I love you so much 

جاوید صاحب نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا : 

love you 2 merii jan 

ارم نے جاوید صاحب کو مخاطب کر کے کہا : انکل آپ نے ہی اس کو اتنا بگاڑا ہے اس کی ہر بے جا ضد کو پورا کر کے ،اب اگر شادی کے بعد رعیان نے اِس کی کوئی ضد پوری نہ کی یہ تو رونے لگ جائے گی اور گھر واپس آ جائے گی

زویا نے منہ بنا کر کہا : وہ کیوں نہیں کرے گا اُس کو میری کر ضد پوری کرنی پڑے گی اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو زویا چوھدری کو اپنی ضد منوانے آتی ہے 

جاوید صاحب نے کہا : بلکل رعیان تو میری بیٹی کی ہر ضد پوری کرنی ہی پڑے گی 

ارم نے مسکرا کر کہا : جی انکل ٹھیک ہے 



جاوید صاحب صوفے پر کچھ اداس بیٹھے تھے اتنے میں کلثوم بیگم وہاں آئی 

کلثوم بیگم نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا : کیا ہوا آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں 

جاوید صاحب نے پریشان ہوتے ہوئے کہا : مجھے زویا کی بڑی فکر ہے 

ہم لوگوں نے اُس کی ہر ضد کو پورا کیا دنیا کی ہر خوشی اس کے قدموں میں لا کر رکھ دی اور وہ یہ ہی امید رعیان سے بھی رکھتی ہے 

میں جانتا ہوں وہ اُسکا بہت خیال رکھیں گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر رعیان زویا کی امیدوں پر پورا نہیں اترا تو.....

کلثوم بیگم نے کہا : اللہ نا کریں ایسی باتیں کیوں کر رہیں ہیں 

جاوید صاحب نے کہا : پتا نہیں کیوں بس ڈر لگ رہا ہے 

کلثوم بیگم نے جاوید صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا: مت سوچیں اتنا زیادہ .. اللہ ہماری بیٹی کے نصیب اچھے کرے گا اور اُس کو ہمیشہ خوش رکھے گا 

جاوید صاحب نے کہا : انشاللہ چلو اب میں تیاریاں دیکھ لیتا ہوں 


پارلر والی زویا کو تیار کر رہی تھی 

زویا نے اُس کو مخاطب کر کے کہا : آج مجھے اتنا اچھا تیار کرنا کے رعیان کی نظر مجھ پر سے ہٹے ہی نہیں ، وہ مجھے ہی دیکھتے رہیں 

پارلر والی نے کہا :  ٹھیک ہے میڈم آپ کے چہرے پر ماشاللہ بہت نور آیا ہے اگر آپ برا نا مانیں تو ایک بات پوچھوں 

زویا نے کہا : جی پوچھیں 

اُسنے کہا : آپ کی 

Love marriage 

ہوئی ہے ؟؟

زویا نے ہنس کر کہا : ہاں یہ ہے تو 

Love marriage but 

ہو 

Arrange marriage 

رہی ہے اور رعیان تو اتنا فرمابردار ہے کہ منگنی سے لے کر شادی تک ایک مہینے ہو گیا ہے اب تک اُسنے مجھ سے بات تک نہیں کی 

وہ پرانے زمانے میں کہتے تھے نہ کہ لڑکا لڑکی شادی سے پہلے بات نہیں کر سکتے تو مجھے لگتا ہے میرے رعیان نے اُس کو کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا ہے 

زویا نے ہنستے ہوئے اپنی بات ختم کی 

پارلر والی نے کہا : ماشاللہ اللہ پاک آپ کو ایسے ہی خوش رکھے 

زویا نے مسکرا کر کہا : اچھا اب مجھے تیار کر دو جلدی جلدی ورنہ میری برات آ جائے گی 



رعیان شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا 

علی کمرے میں داخل ہوا 

علی نے رعیان کو مخاطب کر کے کہا : رعیان تم تیار ہوگئے 

رعیان تیار ہو کر کھڑا تھا 

علی نے رعیان کو دیکھتے ہی کہا : رعیان تو کتنا اچھا لگ رہا ہے اِس مہرون شیروانی میں دیکھنا بھابھی تو تجھے دیکھتے ہی رہے جائے گی 

رعیان نے منہ بنا کر کہا : بکواس بند کر ، اور یہ تو نے کب سے اُس کو بھابھی بولنا شروع کیا ہے خبردار جو میں نے دوبارہ تیرے منہ سے بھابھی سنا ... 

علی نے منہ بنا کر کہا : ہار مانا شادی تیری مرضی سے نہیں ہو رہی ہے لیکن شادی تو ہو رہی ہے نہ تو اس رشتے میں وہ میری بھابھی ہی لگی اب ان کا نام لیتے ہوئے میں اچھا لگوں گا کیا 

رعیان نے کہا : اچھا بس ٹھیک ہے بکواس بند کر جو مرضی بول مجھے کیا 

علی نے مسکراتے ہوئے کہا : اچھا چل اب نیچے چلتے ہیں سب تیرا انتظار کر رہیں ہیں 


سب لوگ برات لے کر نکل چکے تھے 


زویا تیار ہوگئی تھی 

پارلر والی نے کہا : میڈم ماشاللہ ماشاللہ آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں اور یہ آپ کے چہرے کی خوشی اِس میں چار چاند لگا رہی ہے 

میں نے آج تک جتنی بھی دلہن تیار کی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ نور آپ کے چہرے پر آیا ہے لگتا ہے آپ اپنے والے والے ہسبینڈ سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں 

زویا نے لال رنگ کا بھاری لہنگا پہنا ہوا تھا ہاتھوں میں چوڑیاں ، ماتھے پر ٹیکا ، کانوں میں جھمکے گلے میں پار پہنا ہوا تھا 

آنکھوں میں لال رنگ کا آئی شیڈو اور لال رنگ کی لپ سٹک لگائی ہوئی تھی 

زویا نے مسکراتے ہوئے کہا : یہ تو آپ نے بلکل ٹھیک کہا میں اُسسے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں شاید اتنی زیادہ کہ اس کو پا کر مجھے خود پر ہی رشک آ رہا ہے 

اس کے ہونے کی خوشی میں میرے پاؤں زمین پر ہی نہیں رکھ رہے ہیں 

زویا نے اتراتے ہوئے مزید کہا : میں پیاری اور خوبصورت تو ہو لیکن آج رعیان کی محبت کی خوشی میرے چہرے پر آگئی ہے 

رعیان کی محبت نے مجھے اور حسین کر دیا ہے 

زویا نے کہا : اچھا چلو میری ایک تصویر بناؤ 

پارلر والی نے زویا کی ایک خوبصورت سی تصویر بنائی 

پارلر والی نے کہا : آپ اس تصویر کا کیا کریں گی 

زویا نے مسکراتے ہوئے کہا : میں رعیان کو سینڈ کروں گی میں چاہتی ہوں رعیان مجھے سب سے پہلے دیکھیں 

زویا نے رعیان کو اپنی تصویر سینڈ کی 



جاری ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post