Pehli Mohabbat Urdu Novel | First Sight Love Urdu Romantic Novel | Long Urdu Novels | Episode 12

 ناول پہلی محبت 

قسط 12 


صبح زویا یونیورسٹی گئی 

زویا نے ارم کو کہا : یار یہ رعیان سکندر تو عجیب سی پہیلی ہی ہے 

سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے 

ارم نے پوچھا : کیوں کیا ہوا 

زویا نے کہا : کل میں اُسکے گھر پارٹی پر گئی تھی 

اُسکے پاپا اور میرے پاپا بچپن کے دوست ہیں 

وہاں میری سب نے تعریف کی ایک وہ ہی تھا جس نے نہ مجھے ایک بار پیار سے دیکھا اور نہ میری تعریف کی 

ارم نے کہا : تو اب تیرا کیا پلین ہے 

زویا نے مسکرا کر کہا : میں جب اُس کو دیکھتی ہوں سب بھول جاتی ہوں 

کل بھی جب اُس کو دیکھا تو بس دیکھتی ہی رہ گئی تھی 

دل کی بات کہنے تھی لیکن ہمت ہی نہیں ہوئی 

محبوب کو دیکھنا بھی سکون بخشتا ہے 

لیکن مجھے لگتا ہے رعیان سکندر ویسا ہے نہیں جیسا وہ دکھاتا ہے 

وہ اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور ہے 

کل جب میں اُس کو دیکھ رہی تھی اُس کی آنکھوں میں مجھے درد نظر آرہا تھا 

اور تجھے پتا ہے کل میں نے اُس کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ رعیان سگریٹ بھی پیتا ہوگا 

میں جتنا اُس کو جاننے کی کوشش کرتی ہوں اور اتنا ہی مجھ سے دور جاتا ہے 

ارم نے کہا : زویا میں نے اس سے پہلے تجھے اتنا کسی انسان کیلئے سیریز ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے 

زویا نے کہا : کیا کروں وہ میرے دل و دماغ سے نکلتا ہی نہیں ہے 

ارم نے کہا : تو پاگل ہو جائے گی 

زویا نے ہنس کر کہا : پاگل تو ہوگئی ہوں 

تجھے پتا ہے آج وہ حلف لے گا 

تو میں ضرور ہی دیکھوں گی 

ارم نے کہا : رعیان پتا نہیں تجھ سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں 

تو ایسے ہی اُس کے خواب سجا بیٹھی ہے 

زویا نے کہا : وہ مجھے چاہیے 

اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ وہ مجھے ضرور ملے گا 

میں اُس سے محبت کرتی ہوں اور میں جانتی ہوں اگر وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا ہے تو کر لے گا 

تو نے ہی تو کہا تھا میں بہت اچھی ہوں تو اُس کو مجھ سے محبت کرنی پڑے گی 

میں اُس کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہوں 

اور تو دیکھنا میں اُس سے اتنی محبت کروں گی کہ وہ اپنے ماضی کا ہر دکھ بھول جائے گا 




علی رعیان کے پاس آیا 

علی نے رعیان کو کہا : کل کیا ہوا تھا 

رعیان نے کہا : کیا ہوا تھا 

علی نے کہا : زویا تیرے کمرے میں کیا کر رہی تھی 

رعیان نے کہا : مبارکباد دینے آئی تھی 

علی نے کہا : وہ پارٹی میں انوائٹ تھی 

رعیان نے کہا : مجھے کیا پتا 

مجھے تو یہ بھی نہیں پتا وہ کس کے ساتھ آئی تھی اور نہ مجھے کوئی شوق ہے اُس کے بارے میں جاننے کا 

علی نے کہا : تیرے پاپا کے بچپن کے دوست جاوید صاحب جو کہ اُس شہر کے ڈپٹی کمشنر ہیں ان کی اکلوتی بیٹی ہے 

رعیان نے کہا : کیا 

علی نے کہا : جی ہاں 

رعیان نے کہا : تب ہی تو اُس سے پیر زمین پر نہیں روکتے ، پتا نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے 

علی نے کہا : تو اُس کو کیا سمجھتا ہے 

رعیان نے کہا : میں اُس کو کچھ نہیں سمجھتا 

اب چل حلف اٹھانے جانا ہے 

رعیان نے کچھ ہی دیر بھی حلف لے لیا 

سارے شہر میں صرف اور صرف رعیان کی ہی باتیں ہو رہی تھی 


کچھ ہفتوں بعد سکندر صاحب اور عمر بیٹھے چائے پی رہے تھے 

سکندر صاحب نے عمر کو مخاطب کر کے کہا : عمر اب تو رعیان نے اپنی ذمد داریاں بھی اچھی طرح سے سنھبال لی ہیں اب میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ شادی کر لے 

عمر نے حیران ہو کر کہا : پاپا وہ کبھی نہیں مانے گا 

سکندر صاحب نے کہا :  سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے 

رعیان کے مخالفین اور میرے مخالفین اب کم نہیں ہے 

وہ مل کر ایک ساتھ ضرور کچھ نہ کچھ تو کریں گے 

وہ چپ نہیں بیٹھیں گے 


مجھ سے رعیان کی یہ حالت بھی نہیں دیکھی جاتی سارا دن وہ کام کرتا رہتا ہے اور شام کو تنہائی میں بیٹھا ہوا سگریٹ پیتا رہتا ہے 

اس لیے میں چاہتا ہوں  وہ جتنی جلدی ہو شادی کر لے تا کہ وہ مصروف ہو جائے 

بیوی آئے گی تو وہ شاید ٹھیک ہو جائے پہلے جیسا ہو جائے 

اُسکی تنہائی دور کرنے کیلئے مجھے اُسکی شادی کرنی ہوگی ورنہ تو وہ خود کا خود دشمن بنا ہوا ہے 

سارا دن سگریٹ اور نشہ کرتا رہتا ہے 

عمر نے کہا : پاپا لیکن وہ شادی کیلئے کبھی نہیں مانے گا 

  سکندر صاحب نے کہا : تم مائرہ سے بات کروں 

وہ رعیان کو سمجھائے 

اُسکی ماں زندہ ہوتی تو وہ سمجھاتی 

لیکن بڑی بھابھی بھی ماں کی جگہ ہوتی ہے تم ماہرہ سے بات کر کے دیکھو 

عمر نے منہ بنا کر کہا : پاپا آپ کو تو ماہرہ کا پتا ہے 

وہ گھر میں ہوتی کہاں ہے سارا دن شوپنگ اور پارٹیوں میں مصروف ہے 

اگر کبھی گھر آ بھی جائے تو اس کو کسی کی بھی پرواہ تھوڑی ہے 

میں تو اُس سے شادی کر کے ہی پچھتا رہا ہوں 


سکندر صاحب نے کہا : یہ تو تم نے ٹھیک کہا اُس کو کسی کی فکر ہی نہیں ہے 

اس لیے میں چھوٹی بہو لانا چاہتا ہوں جو اس گھر کو گھر بنائے 

تمہاری ماں کے جانے کے بعد یہ حویلی بالکل ویران ہوگئی ہے 

میں وہ بہو لانا چاہتا ہوں وہ اس حویلی میں پیار کے رنگ بھر دے 

مجھے تو ایمان کی بہت پریشانی رہتی ہے

چھوٹی بہو آئے گی تو وہ ایمان کو اپنی بہنوں کی طرح پیار کرے گی عمر نے کہا : پاپا آپ نے رعیان کیلئے کوئی لڑکی ڈھونڈ لی ہے کیا ؟؟؟


سکندر صاحب نے کہا : ہاں 

عمر نے فورا سے پوچھا : کون 

سکندر صاحب نے کہا : میرے بچپن کے دوست جاوید چوھدری کی بیٹی  زویا چوھدری  

جو کل پارٹی میں آئی تھی 

وہ بالکل رعیان کے ساتھ میچ ہے 

مجھے یقین ہے وہ اس گھر میں پیار کے رنگ بھر دے گی اور رعیان کی زندگی میں بھی وہ سب کا بہت خیال رکھے گی 

عمر نے کہا : ہاں پاپا 

کل میں نے اُس کو پارٹی پر دیکھا تھا لیکن اب رعیان کو کون منائے گا 

یہ سوال ہے ؟؟؟

سکندر صاحب نے کہا : تم بات کر کے دیکھو اگر بات نہیں بنتی تو میں خود بات کروں گا 

عمر نے کہا : ٹھیک ہے پاپا 



عمر رعیان کے کمرے میں گیا 

وہ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا 

عمر نے کہا : رعیان میں اندر آ جاؤں 

رعیان نے کہا : جی آجائیں بھائی 

عمر آیا بیٹھا اُس نے رعیان کو کہا : مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے

رعیان نے کہا : جی اب آپ نے کیا بات کرنی ہے 

عمر نے سانس بھرتے ہوئے کہا : پاپا چاہتے ہیں کہ تم شادی کر لو 

رعیان ایک دم غصہ میں کھڑا ہوگیا اور کہا : پاپا کا آخر مسئلہ کیا ہے 

وہ مجھ سے چاہتے کیا ہیں 

انہوں نے کہا سیاست کر لوں تو اب سیاست میں آ تو گیا ہوں 

اب مجھے چین سے کیوں نہیں رہنے دیتے  

میری زندگی ہے یا پھر پاپا کی کہ جب وہ چاہیں جیسے وہ چاہیں ویسا میں کروں 

عمر نے کہا : یہ کس طرح تم بات کر رہے ہو 

وہ پاپا ہے تمہارے 

رعیان نے کہا : لگتے تو نہیں ہیں 

ان کو جا کر بول دیں میں شادی نہیں کروں گا

عمر نے کہا : ان کو تمہاری فکر ہے 

اس لیے بول رہے ہیں 

تمہاری تنہائیاں دور ہو جائے گی 

رعیان نے غصہ سے کہا : ان کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بالکل ان کو کیا کسی کو بھی میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے 

اور جہاں تک رہی بات تنہائیوں کی تو مجھے ان تنہائیوں میں سکون ملتا ہے کم از کم یہ مجھے اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ یہ مجھے کبھی دھوکا نہیں دے گی 

تنہائیاں بہتر ہیں یہاں کے منافق لوگوں سے 

اب آپ جائیں یہاں سے مجھے اب اس ٹوپک پر کوئی بات نہیں کرنی 

رعیان بہت غصہ میں تھا 

عمر اٹھ کر چلا گیا 


زویا اوپر اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ کلثوم بیگم نے زویا کو آواز دی 

زویا نے کہا : جی ماما کیا بات ہے 

کلثوم بیگم نے کہا : بیٹا اب تم بڑی ہوگئی ہو اور تمہاری پڑھائی بھی ختم ہونے والی ہے  

ایک رشتہ آیا ہے لڑکا بہت اچھا ہے

تمہارے پاپا اور مجھے بہت پسند ہے 

ان کا اپنا بزنس ہے پاکستان اور پاکستان کے باہر 

تمہارے پاپا بہت اچھے سے جانتے ہیں 

انہوں نے تمہارے لئے رشتہ بھیجا ہے 

تو تمہارے پاپا نے کہا زویا سے پوچھ لو پھر ہم ان کو کوئی جواب دینگے 


زویا ایک دم حیران و پریشان ہوگئی 

اُس نے فورا سے کہا : ماما آپ منع کر دیں 

کلثوم بیگم نے کہا : کیوں تمہیں کوئی اور پسند ہے کیا ؟؟

زویا نے کہا : نہیں ماما میں بس ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں 

بس آپ ان کو منع کر دیں 

کلثوم بیگم نے کہا : خود تو تم کب سے شادی شادی کر رہی تھی اب اتنا اچھا رشتہ آیا تو انکار کر رہی ہو 

زویا نے دل میں کہا : ماما میں آپ کو کیسے بتاؤں میں رعیان کے علاؤہ کسی اور سے شادی نہیں کرنا چاہتی 

میں اُس سے بہت محبت کرتی ہوں لیکن پتا نہیں وہ مجھ سے شادی کرنا بھی چاہتا ہے یا نہیں 

کلثوم بیگم نے زویا کو کہا : کیا سوچ رہی ہو 

زویا نے چونک کر کہا : کچھ نہیں ماما 

بس آپ اس رشتہ سے منع کر دیں 

کلثوم بیگم نے کہا : ٹھیک ہے میں تمہارے پاپا کو بتا دوں گی 



جاری ہے ....

Post a Comment

Previous Post Next Post